موٹیویشنل سپیکرز کے دور میں لفظ کی حرمت جتنی پامال ہوئی ہے، شاید اِس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ لفظ سب سے زیادہ دو پیشوں کے لیے اہم رہا ہے۔ ایک وکیل، دوسرے مفسرین۔ ہمارے ہاں تینوں نے ہی اِسے ٹینڈوں اور کریلوں کی طرح مختلف چیزوں سے بھر کر پیش کیا ہے۔ لفظ کی بے حرمتی کرنے میں وکیلوں اور مفسرین کا کوئی ثانی نہیں۔ ہم معنی کو لفظ دینے کی بجائے لفظ کو معنی دیتے ہیں۔ یہی آپ موٹیویشنل سپیکرز کا فن ہے۔ آپ ’’حرمت‘‘ کو بھی من مانے معنی دیں گی، آپ خوشی، استغنا، توکل، دکھ، زندگی جیسی ایبسٹکریشنز کے ٹینڈوں اور کریلوں میں مرضی کی چیزیں بھریں گی اور دھاگا لپیٹ کر غیر متجسس اذہان کو پکڑا دیں گی۔
اور یہ لفظ کی ’’حرمت‘‘ ہوتی کیا ہے؟ کیا زبان کا چٹخارہ لیتے ہوئے تالیاں بجوانے والے فقرے چھوڑنا آپ کے لیے حرمت ہے؟ لفظ آپ کا سروتا ہے جس سے آپ چھالیہ کتر کتر کر ہی دیں گی۔
مغربی فلسفہ، نفسیات اور علم البدائع میں عقل اور منطق پر انحصار کیا جاتا ہے۔ مغربی روایت میں ارسطو اور مشرقی روایت میں گوتم بدھ نے لفظ کا پہلی بار منظم استعمال بتایا۔ ہیراکلیتس کے لیے لفظ یا لوگوس استعمال کیا۔ سوفسطائیوں نے اِسے بحث کا ذریعہ بنایا۔ آپ تو بحث کرنا پسند ہی نہیں کرتیں۔ آپ کو موم کے بھربھرے دماغ چاہئیں۔ آپ زود رنج ہیں، آپ مسکراتی بھی نہیں۔ بس ناک سے نہ ہونے کے برابر ہونٹ تک کی وسیع مثلث کو تحقیر آمیز انداز میں پھیلاتی اور سکیڑتی ہی ہیں۔
حال ہی میں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے حوالے سے ایف سی کالج میں ایک سیمینار ہونا تھا۔ وہاں آپ کے cult سے تعلق رکھنے والے طلبا نے آپ کی گفتگو رکھی اور ساتھ میں مجھے بھی بٹھانے پر غور کیا۔ کچھ غوروخوص کے بعد اور میری تجویز پر ہی اُنھوں نے میرا نام ڈراپ کر دیا۔ وہ آپ کے بہت بڑے فین ہیں، اُنھیں ڈر تھا کہ آپ برا مان جائیں گی میری کسی بات کا۔
آپ کے لیے صرف اُسی لفظ کی حُرمت ہے جو آپ کی مرضی کا ہو۔ آپ پنجابی اور سندھی اور بلوچی اور دیگر زبانوں کی حُرمت جانتی ہیں؟ آپ ایک مٹی چکی ثقافت کے مٹ چکے خیالی احساس کی آڑ میں ریاستی بیانیہ یک طرفہ طور پر ٹھونسنے کی عادی ہیں۔ آپ کو لفظ کی حرمت کا کیا پتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...