آپ کے شیلف میں کتنی ہزار کتابیں ہیں؟ ان میں انگریزی کتابوں کی تعداد کم کیوں ہے؟ آپ کا پسندیدہ ناول کون سا ہے؟
یہ تینوں سوال مجھ سے احد اقبال، یعنی ہمارے سپوت نے کیے۔
نصابی کتب میں تو احد کی کوئی خاص دل چسپی نہیں، البتہ جاسوسی ادب آج کل اس کی توجہ کا محور بنا ہوا ہے، ہمہ وقت کتابیں سرہانے رہتی ہیں۔ صاحب باقی کاموں سے جی چراتے ہیں، کتاب میں گم رہنے لگے ہیں۔ فلم بینی کا شوق بھی بڑھ گیا ہے، مگر فی الحال ہماری توجہ ان کی کتب بینی کی سمت ہے۔
یہ احد ہی تھا، جس نے یہ سوال داغا کہ میرے کلیکشن یا شیلف میں کتنی کتب ہیں؟
میرا خیال تھا کہ یہ تعداد ڈھائی سے تین ہزار ہے۔ اسے دعوے پر شک تھا۔ خود کو درست ثابت کرنے کے لیے شیلف میں موجود کتب گننے کی ٹھانی، اور اگلے دن مجھے، پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ، مطلع کیا کہ شیلف میں موجود کتب دو ہزار ہیں۔
میں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ باقی ہمیں نصیب میں لکھی ہجرتوں کی نذر ہوئیں۔
احد کے مطالعاتی سفر میں ہیری پورٹر اور ویمپی کڈ کا مرحلہ تو پہلے ہی طے ہوچکا تھا۔ بعد ازاں سیلف ھیلپ کتابیں پڑھنے لگا کہ وہی اس کے دوست پڑھ رہے تھے۔ پھر جب بی بی سی کی شرلاک ہومز پر مبنی ویب سیریز دیکھی، تو اس سمت متوجہ ہوا۔ میرا کلیکشن کھنلگا، تو سر آرتھر کونن ڈویل کے دو کتابیں مل گئیں، جن میں ان کا شہرہ آفاق ناول The Hound of the Baskervilles بھی تھا۔
ان سے نمٹ لیا، تو حیدری بک اسٹال کا رخ کیا۔ پائیریٹڈ، سستی کتابوں کے وہاں کئی اسٹال ہیں۔ مجھے توقع نہیں تھی، مگر وہ وہاں سے شرلاک ہومز کی چند شارٹ اسٹوریز ڈھونڈ لایا، اور آج کل انھیں ہی میں گم ہے۔
اسے شکوہ ہے کہ میری لائبریری میں اردو کتب زیادہ، اور انگریزی ادب کم ہے۔ میں نے شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہہ دیا کہ اس کمی کو تم یورا کرو۔ انگریزی کتابیں لائو، مگر ساتھ ہی اردو کتابیں بھی پڑھو کہ ادب کا کام تفریح طبع کے ساتھ ساتھ فرد کو اپنے سماجی سے جوڑے رکھنا، اسے سمجھنا، پرکھنا اور برتنا بھی ہے، اور وہ تو تب ہی ممکن، جب اپنی زبان کا ادب پڑھا جائے۔
میری دانش سے متاثر تو نہیں ہو،ا مگر انکار نہیں کیا۔سوچا ہے، اسے ابن انشا کی اردو کی آخری کتاب گفٹ کی جائے۔ اردو اس کی، توقع کے عین مطابق کم زور ہے، اس کی کاپیاں پڑھ کر اتنی ہنسی آتی ہے کہ آنکھوں سے آنسو بہننے لگتے ہیں۔
خیر، مطالعے کی عادت کی وجہ سے خود کو بھاری بھرکم اور دانش ور سمجھنے لگا ہے۔ انٹرنیٹ پر اس نوع کی چیزیں سرچ کرتا رہتا ہے۔ ایک بار سقراط اور افلاطون کے بارے میں پوچھنے لگتا۔ Marcus Aurelius کی کتاب The Meditations کے کچھ حصہ پڑھ چکا ہے، اور اس رومی فرماں رواں کو ایک دانش ور خیال کرتا ہے۔
رشتے داروں سے ملنے جاتا ہے، تو کتابیں ساتھ لے جاتا ہے۔ خود سے ان سے الگ رکھتے ہوئے، بیٹھا کتاب پڑھتا رہتا ہے۔
ایسی ہی عادت ہمیں بھی تھی، بسوں میں کتابیں ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ اچھا زمانہ تھا، ایک بار رامائن کا اردو ترجمہ اٹھائے ہم ایک صاحب کے ولیمے میں پہنچ گئے۔ دولہے کے ساتھ تصویر بھی بنوائی۔ ہمارے ساتھ دوست تگڑے تھے، باڈی بلڈنگ بھی کرتے تھے، ہمیں اعتماد تھا، معاملہ بگڑا، تو وہ سنبھال لیں گے۔ پھر وہ گرویدہ بھی تھے کہ ہمارے ہی شیلف سے، جو اس وقت تازہ تازہ تھا، وہ تانترا اور کاماسترا پڑھنے کو لے جاتے تھے۔
ایک بار بس میں ہم ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی ایک کتاب پڑھ رہے تھے، تو ایک ایک دراز قد، باریش، کھلے جہادی ٹائب کرتا پہننے ایک صاحب نے پوچھا:
“یہ غلام جیلانی برق کی کتاب ہے؟”
ہم نے اثبات میں سر ہلایا، تو پوچھنے لگا: “ان کی دو اسلام پڑھی ہے؟”
ہم اتنے معصوم اور جاہل تھے کہ کہہ دیا، ہاں پڑھی ہے۔
اس نے ایک لمحہ کا توقف کیا، بس میں وقت تھم گیا، ہم نے سانس روک لیا۔ پھر وہ گویا ہوا۔ “جماعت المسلمین نے اس کتاب کا جواب لکھا ہے، وہ بھی پڑھیں۔”
آج سوچتا ہوں، تو اپنی ان نالائقیوں کے باوجود صحیح سالم ہونے پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
امید ہے، احد ایسی نالائقیوں سے باز رہے ہیں۔
احد کے کتابوں سے متعلق اور بھی کئی سوالات ہیں ،جن میں ایک دوستوفسکی کے ناول جرم و سزا کے گرد گھومتی ہے، جس پر پھر کبھی بات ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبال خورشید
۲۶ اگست ۲۰۲۳
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...