(Last Updated On: )
بارش اس قدر تیز تھی کہ جیسے آسمان سے آبشار رواں ہوں رات کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں وقفے وقفے سے جب بجلی چمکتی تو محض ایک لمحے کے لیے سڑک کا منظر واضح ہوتا ، شدید بارش اور گھپ اندھیرے کی وجہ سے ہیڈلائٹس کی روشنی بھی محض چند فٹ تک محدود ہو کے رہ گئی تھی ۔ گاڑی کے وائپرز مسلسل چالو تھے مگر بےسود۔ بارش اور اندھیرے کے پیش نظر میں بہت آہستہ ڈرائیو کررہی تھی۔
میں مسلسل سات گھنٹے سے سفر میں تھی اور اس وقت شدید تھکاوٹ کا شکار تھی۔
” کیا مصیبت ہے ۔ بارش تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔۔۔” میں نے بجلی چمکنے کی روشنی میں سڑک کے دونوں اطراف تا حد نگاہ پھیلے جنگل اور بلند درختوں پر نظر دوڑاتے ، خود سے کہا۔
مجھے راجیش پورہ سے سہام نگر جانا تھا اور یہ جنگل ان کے بیچوں بیچ پڑتا تھا ۔ یہ سفر محض چار گھنٹے کا تھا مگر بارش نے میری رفتار کم کردی تھی ۔
درجہ حرارت اس وقت محض 2 ڈگری سینٹی گریڈ تھا مگر کار میں ہیٹر کی خوشگوار حدت موجود تھی ۔
کار کی چھت پر موسلاد دھار بارش کی پھوار پڑنے کی آواز اور تیز طوفانی ہوا کی آواز نے ماحول کو انتہائی پراسرار بنا دیا تھا ۔۔
مزید چند میل ہی ڈرائیو کرنے لے بعد اچانک کار کو ایک جھٹکا لگا ۔۔۔ اور مجھے فورا بریک لگانی پڑی ۔
” میرے خدا ۔۔۔ یہ کیا تھا “۔ میں نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔
اصل مسئلہ جاننے کے لیے باہر نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا ۔۔۔ کار سے باہر قدم رکھتے ہی طوفانی بارش کے تھپیڑوں نے میرا استقبال کیا اور محض تین چار سیکنڈز میں میرا وجود سر تا پا شرابور ہو چکا تھا ۔۔۔ گاڑی کا جائزہ لینے پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ دو ٹائر فلیٹ ہو چکے ہیں۔
میرے پاس کوئی سپیئر ٹائر بھی موجود نہ تھا ۔۔۔ بے بسی کے عالم میں میں پھر سے گاڑی میں واپس بیٹھ گئی کیونکہ سردی اب میری برداشت سے باہر ہوچکی تھی ۔ میں بری طرح سے کانپ رہی تھی اور مکمل طور پر بھیگ چکی تھی ۔ میں نے ہیٹر کو آخری حد تک تیز کردیا ۔
دس منٹ تک ہیٹر کی تپش کی وجہ سے مجھے کچھ سکون محسوس ہوا لیکن بھیگے ہوئے لباس کا میرے پاس کوئی حل نہ تھا ۔۔۔
اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا ماسوائے گاڑی میں ہی رات بسر کرنے کے ۔ انجن چالو تھا ، ہیٹر چل رہا تھا اور میرے موبائل کی بیٹری فل چنانچہ میں گاڑی میں بھی رات بسر کرسکتی تھی ۔۔۔ میں نے فون پر اپنی پسندیدہ گیم آن کی ، پرس سے نمکو کا پیکٹ نکالا اور اس تناو بھرے ماحول سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرنے لگی ۔
اب بجلی بار بار چمک رہی تھی اور بادل مسلسل طرح رہے تھے ۔۔۔۔ تبھی میری نظر سڑک کے بائیں جانب کچھ فاصلے پر پڑی اور درختوں کے عقب میں مجھے کسی عمارت کا ہیولہ سا نظر آیا ۔ اور میں نے حیرت سے اس پر نظریں جما دیں۔۔۔ مزید چند مرتبہ بجلی چمکنے سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ واقعی وہاں کوئی عمارت موجود ہے ۔
” اس ویرانے میں بھلا کون رہتا ہوگا ۔۔۔؟” میں نے سوچا ۔
” چلو جو بھی رہتا ہو ۔۔۔ میری بھلا سے۔” میں نے خود کلامی کے انداز میں کہا۔
مزید دس منٹ گزرے تھے کہ اچانک کوئی چیز گاڑی کی ونڈ شیلڈ سے ٹکرائی اور میں بےساختہ چیخ اٹھی ۔۔۔۔ ” یہ کیا تھا ، یہ کیا تھا ، یہ کیا تھا ؟؟” میرے دماغ میں ایک ہی سوال بجلی کی طرح کوند رہا تھا لیکن چند لمحے میں ہی اندازہ ہوگیا کہ اب بارش کے ساتھ ساتھ اولے بھی برسنے لگے ہیں ۔۔۔۔
” اگر ژالہ باری تیز اور شدید ہو گئی تو لمحوں میں گاڑی کے سبھی شیشوں کے پرخچے اڑ جائیں گے ۔۔۔۔اور پھر بارش کے طوفان کو کار میں گھس جانے میں کوئی وقت نہ لگے گا ۔۔۔ نقطہ انجماد کے نزدیک اس ٹمپریچر میں کہ جب گاڑی کے شیشے غائب اور مسلسل طوفانی بارش اور ژالہ باری مجھ پے پڑ رہی ہوگی تو اس کار کو میری قبر بننے سے کوئی نہ روک سکے گا۔۔۔۔ ژالہ باری کے تیز و متواتر ہونے سے قبل مجھے کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔۔۔۔” میں نے سوچا اور تیزی سے ایک فیصلہ کیا۔
میں نے جیکٹ کا ہڈ اوپر کیا ۔۔۔ پرس کندھے سے لٹکایا ، تیزی سے باہر نکلی، اپنے ہاتھوں پر دستانے پہنے اور ٹارچ پکڑ کر تیزی سے کار سے نکلی۔۔۔۔ اب بارش کے ساتھ برستے اولوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔ میرے جسم پر موٹے، گرم کپڑے موجود تھے لہذا مجھے امید تھی اس عمارت تک پہنچنے سے قبل برف کے اولے مجھے زخمی نہیں کر پائیں گے ۔۔۔ لیکن میرا چہرہ اب بھی غیر محفوظ تھا ۔۔۔ میں ٹارچ کی روشنی میں محتاط انداز میں مگر تیز قدموں اس عمارت کی طرف بڑھ رہی تھی جو سڑک سے محض چند فرلانگ ہی دور تھی مگر تیز بارش کیچڑ اور زمین پر ریلے کی طرح بہہ رہی پانی نے میری رفتار مزید کم کردی تھی ۔۔۔ دس منٹ میں میں بیرونی دروازے تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔ دروازہ بند تھا اور اسے باہر سے کنڈی لگی تھی ۔۔۔ میں نے تیزی سے کنڈی کھولی اور یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی کہ دروازہ اندر سے بند نہ تھا ۔۔۔ میں نے پوری قوت سے اسے دھکیلا لیکن نجانے کب سے بند پڑا وہ دروازہ ٹھیک سے کھل بھی نہ رہا تھا بمشکل میں نے دھکیل کر اتنی جگہ بنائی کہ اندر داخل ہو سکوں۔۔۔ یہ ایک کھلا صحن تھا جو شاید کبھی پائیں باغ رہا ہو مگر اب جھاڑ جھنکار اور جنگلی بیل بوٹیوں سے اٹا تھا میں بھاگتی ہوئی کچھ فاصلے پر موجود برآمدے تک پہنچی ۔۔۔ اور اب ژالہ باری انتہائی تیز ہونے لگی تھی ، اولوں کا سائز بھی اب گیند کے جتنا ہوچکا تھا اگر چند لمحے بھی مجھے دیر ہو جاتی تو میں موقع پے ماری جاتی۔۔۔
“اگر میں کار میں ہوتی تو اس وقت میرا کیا حال ہو رہا ہوتا ۔۔۔” یہ سوچ کر میں خوف سے جھرجھری لی۔
برآمدے کے اختتام پر 5 کمروں کے دروازے نظر آرہے تھے ۔۔۔ میں تیز قدموں ایک دروازے تک پہنچی۔۔۔ اس پر باہر سے ایک زنگ آلود تالہ لگا تھا ۔۔۔۔ بلکہ سبھی کمرے باہر سے مقفل تھے ۔
میں بری طرح سے ہانپ رہی تھی، میرا دل اس بری طرح سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی پھٹ کر ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا ۔۔۔ میری سانسیں میرے قابو سے باہر ہوچکی تھیں اور جسم یوں کانپ رہا تھا کہ جیسے میں سائبیریا کے کسی برفزار میں کھڑی ہوں۔
میں نے بےچینی سے اردگرد نگاہ دوڑائی کو برآمدے میں ایک طرف پڑی پرانی سے زنگ آلود کدال نظر آئی جو شاید کبھی باغ میں استعمال کی جاتی ہو۔۔۔۔ میں نے اسے اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے تھاما اور پوری قوت سے ایک دروازے کے تالے پے دے مارا۔۔۔۔ پانچوں چھٹے وار میں تالا ٹوٹ کے گر گیا ۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئی۔۔۔ یہ ایک اچھا خاصا بڑا کمرہ تھا ۔۔۔ پوری طرح سے فرنش کمرہ۔۔۔ جہاں ایک پلنگ، کچھ کرسیاں ، آتشدان اور بہت سا دیگر سامان پڑا تھا۔۔۔ حیرت انگیز طور پر اس سب کی حالت تسلی بخش تھی۔۔۔۔ وہاں کوئی دھول مٹی یا کاٹھ کباڑ نہ تھا شاید کمرے کے مکمل بند ہونے کی وجہ سے وہ بیرونی اثرات سے بچا رہا تھا ۔۔۔۔
میرے ہاتھ اور بازو سردی کے باعث شل ہوچکے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے میں کسی بھی لمحے گر کر بیہوش ہو جاوں گی ۔
دروازہ اچھی طرح بند کرنے کے بعد میں آتش دان کی طرف بڑھی ۔۔۔ جو کہ یقینا برسوں سے ٹھنڈا پڑا تھا ۔۔۔ مگر اس کے اندر مجھے کچھ لکڑیاں پڑی نظر آئیں جو کہ دیمک زدہ ، مگر خشک تھیں ۔
میں نے جیکٹ کی اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا ۔۔۔۔
” کبھی کبھی بری عادتیں بھی جان بچانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔۔۔” میں نے ہاتھ میں سے نکالتے کہا جس میں ایک سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر موجود تھا ۔
ڈبی میں نے ایک طرف رکھی اور لائٹر جلا کر آتشدان میں پڑی لکڑیوں کو آگ لگانے کی کوشش میں مگن ہو گئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں میری کوشش رنگ لے آئی اور لکڑیوں نے آگ پکڑ لی۔۔۔باہر اب ژالہ باری کی آواز کچھ یوں آرہی تھی کہ جیسے آسمان سے پتھر برس رہے ہوں بلاشبہ اب تک درجہ حرارت نقطہ انجماد کو چھو چکا تھا ۔۔۔آگ کی تپش میرے یخ بستہ وجود تک پہنچی تو بےساختہ میرے منہ سے نکلا ” ہائے اوہ ربا، آگ بھی کتنی بڑی نعمت بنائی ہے تو نے ۔۔۔ اس جہان دی ہے اگلے جہان بھی دینا۔”
” اوپسسس شٹ اپ۔۔۔ کچھ بھی بک جاتی ہو ہوش میں رہ کر بولا کرو۔” میں نے خود کو ڈانٹ کر اپنی سرزنش کی۔
میں آگ کے اتنے نزدیک ہوکر بیٹھ گئی کہ جتنا قریب ہوا جا سکتا تھا ۔۔۔ میرا جسم بدستور بری طرح سے کانپ رہا تھا ۔
پندرہ منٹ تک مسلسل آگ پر خود کو سینکنے کے بعد حالت کچھ بہتر ہوئی ۔۔۔
” جب تک لباس بھیگا رہے گا سردی بھی قائم رہے گی۔۔۔'” میں نے سوچا ۔
میں نے کمرے پر نظر دوڑائی اور اٹھ کر پلنگ کی طرف بڑھی ، اس کے گدے پر ایک موٹی چادر بچھی تھی۔۔۔ میں نے چادر کو کھینچ کے پلنگ سے اٹھا لیا ۔۔۔ میں نے اپنے کیچڑ آلود جوتے اور موزے اتارے ، بھیگا ہوا لباس جسم سے الگ کیا اور اس چادر کو ہی لباس کی طرح خود پر لپیٹ لیا۔۔۔اور پھر سے آگ کے سامنے جاکر بیٹھ گئی۔۔۔
نصف گھنٹے سے بھی زیادہ دیر یونہی آگ کے قریب تر بیٹھ کر اپنے یخ بستہ وجود کو معمول پر لانے کی کوشش کرتی رہی ۔۔۔ یہاں تک کہ مجھے نیند نے گھیر لیا ۔ میں پہلے ہی تھکاوٹ سے چور تھی اوپر سے یہ سب بھاگ دوڑ ۔۔۔ اب میں سکون سے سو جانا چاہتی تھی ۔
‘صبح جاگنے کے بعد واپس گاڑی کے پاس جاوں گی ۔۔۔ اور سڑک سے گزر رہی کسی اور گاڑی کو رکنے کا اشارہ کر کے ان سے مدد کی درخواست کروں گی۔۔ یا پھر کال کرکے کسی کو بلا لوں گی۔”۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے میں اٹھی ، اپنے بھیگے لباس کو پلنگ سے اٹھا کر آگ کے سامنے محفوظ فاصلے پے رکھا اور اطمینان سے لیٹ گئی ۔۔۔ وہاں پہلے سے ہی ایک گرم کمبل فولڈ ہوا پڑا تھا، اسے کھول کر اپنے گرد سختی سے لپیٹا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔اس تھکاوٹ کے ساتھ مجھے نیند کی وادیوں میں اتر جانے میں محض چند لمحے ہی لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں گہری نیند کی پرسکون وادیوں میں تھی کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔
” کیا وقت ہوگا ۔۔۔؟ میں نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مسلتے سوچا اور سرہانے کے ساتھ پڑا موبائل اٹھا کر وقت دیکھا ۔۔۔ رات کے 2 بج رہے تھے ۔
بارش کی آواز بدستور سنائی دے رہی تھی مگر اولے گرنے کی دھمک اب نہ تھی۔
میں نے کمبل ہٹایا اور اٹھی۔۔۔۔ ” صرف چار گھنٹے میں سوئی ، لیکن اچانک آدھی رات کو میں جاگ کیسے گئی۔۔۔۔روز صبح مجھے جگانے کے لیے تو ماما کو میرے سر پے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا پڑتا تھا ۔۔۔اور آج تو تھکاوٹ کی وجہ سے نیند بھی بہت گہری تھی۔” میں نے آتش دان کی طرف بڑھتے کہا جس میں آگ اب محض چند انگاروں کی شکل میں ہی باقی تھی ۔ سبھی لکڑیاں جل چکی تھیں۔۔۔ میں نے قریب پڑی ایک کرسی کو اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پوری قوت سے دیوار سے دے مارا ۔۔۔ کرسی کو توڑنے کے بعد میں نے اس کی لکڑیوں کو الگ کرکے آتش دان میں ڈالا ۔۔۔ میرا لباس تب تک خشک ہو چکا تھا۔۔۔۔آگ کو دوبارہ بھڑکا دینے اور لباس کو زیب تن کر لینے کے بعد میں پھر سے بستر کی طرف بڑھی ۔۔۔ کیونکہ رات ابھی باقی تھی۔
بستر پر دراز ہو کر میں نے اپنے گرد کمبل لپیٹا اور آنکھیں موند لیں۔۔۔۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ شڑاپ کی آواز آئی اور کمبل مجھ پر سے اتر کر دور جا گرا۔۔۔ بے اختیار میرے حلق سے چیخ نکل گئی۔۔۔۔اور میں بستر سے اٹھی ۔۔۔۔ آتش دان کے بالکل قریب کوئی موجود تھا جس کا چہرہ آتش دان کی طرف اور پشت میری طرف تھی ۔ اس کا وجود سر تا پا ایک لمبے سے چغے میں چھپا ہوا تھا ۔۔۔۔
” کون ہو تم ؟ اور یہ کیا حرکت تھی ؟ کیا تم بھی بارش سے بچنے کے لیے اس مکان میں گھسے ہو ؟” میں نے کانپتے لہجے اور ٹوٹتے الفاظ میں اس سے کہا۔
اچانک سے وہ مڑا اور اس نے اپنا رخ میری جانب کیا۔۔۔۔ لیکن پھر بھی میں اس کا چہرہ نہ دیکھ پائی ۔۔۔ کیونکہ وہ بھی چغے میں چھپا تھا۔
” یہاں پانچ کمرے ہیں۔۔۔تمہیں میرا ہی کمرہ ملا تھا بارش سے بچنے کے لیے ؟” میں نے جی کڑا کر کہا۔
” تمہارا کمرہ ۔۔۔ ؟ یہ گھر میرا ہے۔۔۔ کس سے پوچھ کر گھسی تم ؟” اس کی آواز بہت بھاری اور رعب دار تھی۔
” تو آپ اس گھر کے مالک ہیں ۔۔۔۔ پہلے کہاں تھے آپ میں نے آپ کو دیکھا نہیں” میں نے تیز لہجے میں کہا۔
” ہاہاہا۔۔۔ وہ اس لیے کہ جب تک میں نہ چاہوں تم مجھے دیکھ نہیں سکتی ۔۔۔” اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔
” کیا مطلب۔۔۔ ؟ تم کوئی بھوت ہو بھلا۔۔۔؟ دیکھو میں معذرت خواہ ہوں کہ بغیر اجازت۔۔۔۔” ہاں میں بھوت ہی ہوں بدقسمت لڑکی ” اس نے میری بات کاٹ کر گرجدار لہجے میں کہا۔
” بھوت اور تم۔۔۔؟ جے توں پوت اں تے فیر میں وی مصر دی ممی آں۔۔۔” میں نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
” شششش۔۔۔۔ زبان کھینچ لوں گا۔ تمہیں میرے بھوت ہونے پر شک ہے بولو؟” اس نے غصہ آمیز لہجے میں کہا۔
” میں نے سب ہارر فلمیں دیکھ رکھی ہیں بھوت ناتھ صاحب۔۔۔ اگر تم سچ میں بھوت ہوتے تو تمہاری موجودگی میں میری ٹارچ جل بجھ رہی ہوگی سپارک کررہی ہوتی۔۔۔۔کمرے میں سفید دھواں اٹھتا دکھائی دیتا اور دور کہیں جنگل سے بھیڑیے کے جیسی لمبی سی ہاوووووو کی آواز سنائی دیتی۔۔۔۔ چند چمگادڑیں اچانک سے چھت سے اڑ کر چلی جاتیں کمرے میں اچانک درجہ حرارت گر جاتا۔۔۔۔” میں نے کہا۔
” فلم بینی کے بد اثرات ۔۔۔۔ میں بھوت ہوں کوئی الیکٹریشن نہیں کہ بتیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے انہیں جلنے بجھنے پر مجبور کر دوں ۔۔۔۔ نہ ہی میں بھٹیارا ہوں جو دھواں اڑانے لگوں۔۔۔” اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
” میں نے کہا میرے نزدیک مت آنا۔۔۔” میں نے زمین سے ٹوٹی کرسی کی ایک لکڑی اٹھاتے ہوئے اسے اس کی سمت تان کر کہا۔
جواب میں اس نے اپنا ہاتھ ذرا بلند کیا اور میرے ہاتھ میں موجود لکڑی ایک سیاہ ناگ میں بدل گئی۔۔۔ میں نے بری طرح سے چیختے ہوئے ناگ کو پرے پھینکا ۔
” ہاہاہاہا۔۔۔ اب بھی کہو میں بھوت نہیں ہوں۔۔۔” اس نے جیسے اس صورتحال سے لطف اندوز ہوتے کہا ۔
” دیکھو بھوت بھائی مجھے ارداس بھی آتی ہیں اور ہنومان چالیسیا بھی اور یہ دیکھو میں کراس بھی بنا سکتی ہوں ۔۔۔ میرے قریب آئے تو اچھا نہیں ہو گا ۔۔۔” میں نے اپنا ہاتھ ماتھے، سینے اور دونوں کندھوں پر چھوتے ہوئے صلیب کا نشان بنا کر کہا ۔
” پاگل لڑکی۔۔۔ میں مسلمان بھوت ہوں ۔ اس سب سے میرا بال بھی نہیں اکھڑ سکتا۔۔۔” اس نے کہا۔
” مم مجھے آیت الکرسی بھی آتی ہے۔۔۔ دیکھو اب یہ مت کہہ دینا کہ ‘نہیں میں یہو••دی بھوت ہوں’ مجھے ہٹ•لر کی کچھ تقاریر کے اقتباسات بھی یاد ہیں وہ پڑھ دوں گی۔۔۔اگر تم ناستک بھوت بھی ہوتے تو میں چارلس ڈارون کی تھیوری پڑھ کے تمہیں بھگا سکتی تھی بھوت بھائی۔” میں نے گھبراہٹ سے لبریز آواز میں کہا۔
” خاموش۔۔۔ انسان کا آخری وقت آگیا ہو اتنا نہیں بکتے کہ جتنا تم بکے جارہی ہو۔۔۔” اس نے غضبناک ہوتے ہوئے کہا۔
” پلیز ۔۔۔ کچھ تو بھوتانیت کا ثبوت دو۔” میں نے گڑگڑاتے لہجے میں کہا۔
” اب یہ بھوتانیت کیا ہوتی ہے ۔۔۔؟ اس نے کہا۔
” جیسے انسان میں انسانیت ہوتی ہے ۔۔۔ بھوتوں میں بھوتانیت ہی ہوتی ہوگی ناں۔۔۔ بھوت بھائی۔” میں نے کنفیوز لہجے میں کہا۔
میرا اتنا بولنا تھا کہ وہ غرایا اس نے اپنا ہاتھ میری طرف جھٹکا اور میں ہوا میں اچھل کر دیوار سے جا ٹکرائی ۔۔۔۔
” اس کے بعد مجھے بھائی کہا تو پاش پاش کردوں گا۔۔۔ بھلے ہی میں مر چکا ہوں پر ہوں تو مرد کا بھوت ۔۔۔۔ کوئی خوبصورت لڑکی مجھے بھائی کہے اس کی تکلیف تو اتنے سال سے ویرانے میں بھڑکتی رہنے سے بھی زیادہ ہے۔۔۔” اس نے آگ اگلتے لہجے میں کہا۔
” اوووہ سوری ۔۔۔۔” میں نے دیوار سے ٹکرا کر اٹھتے ہوئے درد بھرے لہجے میں کہا۔
” تمہارا آخری وقت ہے۔۔۔مرنے سے پہلے آخری دعائیں مانگ لو جو مانگنی ہیں” اس نے کہا ۔
” دیکھو بھوت بھا۔۔۔میرا مطلب بھوت صاحب ۔۔۔ میرے مرنے سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔۔۔ ظاہر ہے میں مرجاوں گی اور میں بھی بھوت بن جاوں گی تو کونسا میں نے بھوت نگری میں آپ سے انتقام لیے بغیر دم لینا ہے۔۔۔۔
اس سے اچھا ہے کہ مجھے بتا دو کہ تمہاری آتما ، مطلب روح کو کس طرح شانتی یعنی مکتی، نروان۔۔۔ مطلب سکون مل سکتا ہے۔۔۔۔ایک تو انڈین ہارر ڈرامہ سیریل والے بھی یہ نہیں کرتے کہ مختلف مذاہب کے بھوتوں پر ڈرامہ بنائیں تاکہ ہمیں یہ جانکاری ہو کہ کس بھوت سے کن الفاظ میں بات کرنی ہے۔۔۔۔ خیر ہم کہاں تھے ۔۔۔؟ ” میں نے کہا۔
” ٹھیک تو سنو۔۔۔۔ لیکن یاد رکھنا کہ میں پہلے ہی انسانوں کا ڈسا ہوا ہوں۔۔۔ اگر تم نے بھی میرے ساتھ کوئی دھوکہ کرنے کی کوشش کی تو تمہارا خون پی جاوں گا۔۔۔” اس نے کہا۔
” خون ؟ تمہیں اتنا تو پتا ہونا چاہیے کہ ‘بھوت’ اور ‘ویمپائر’ الگ الگ کیٹگریز کے کردار ہوتے ہیں ۔۔۔ ویسے بھی گورنمنٹ کے خون چوس لینے کے بعد جو ہمارا تھوڑا بہت خون بچتا بھی ہے وہ مچھر ۔۔۔۔” میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے اپنا میری طرف لہرایا اور اچانک جیسے میرا منہ بند ہوگیا۔۔۔۔ میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن میرے ہونٹ جیسے سختی سے آپس میں چپک گئے اور میں پوری کوشش کے باوجود بھی ہونٹ تک نہ کھول پائی۔۔۔ میں بولنے سے قاصر ہوچکی تھی۔۔۔
” تم ایسے ہی ٹھیک لگتی ہو۔۔۔۔” بھوت نے کہا۔
وہ چند لمحہ خاموش رہا اور اس نے پھر سے بولنا شروع کیا۔۔۔۔
” میرا نام احمد علی راجپوت تھا ۔۔۔۔ اور میں روشن نگر کے ایک جدی پشتی رئیس ، زمیندار خاندان کا چشم و چراغ تھا ۔۔۔ میں نے نوجوانی میں قدم رکھا ہی تھا کہ مجھے گاوں کی سب سے خوبصورت لڑکی ، زرینہ بانو سے مجھے عشق ہونے لگا ۔۔۔ لیکن اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ۔۔۔ مت پوچھو کہ کتنی مشقتوں کے بعد میں نے اپنے والدین کو راضی کیا کہ وہ زرینہ کے لیے میرا رشتہ لے کر جائیں ۔۔۔۔زرینہ کے والدین کی طرف سے انکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ آخر علاقے کے سب سے رئیس گھرانے سے ان کی بیٹی کے لیے رشتہ آیا تھا ۔۔۔۔ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے تحت ایک ہفتے میں ہی دھوم دھام سے میری شادی ہوگئی ۔۔۔۔لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ زرینہ ایک پست کردار لڑکی ہے جس کا چکر کب سے اس کے چچا زاد کے ساتھ چل رہا تھا ۔۔۔ شادی کے 2 سال ہی ہوئے تھے کہ ایک روز زرینہ نے طے شدہ منصوبے کی تحت مجھے رات کا کھانا دیتے وقت اس میں زہر ملا دیا ۔۔۔اور یوں میری موت واقعہ ہوگئی ، میرے کمرے میں ایک ذاتی تجوری تھی جس میں دسیوں لاکھ روپے نقد اور سونے کی شکل میں موجود تھے اس تجوری کے بارے میں صرف میں اور زرینہ ہی جانتے تھے ۔۔۔ صبح زرینہ نے جاگ کر گھر رونا دھونا مچا دیا کہ احمد حرکت نہیں کررہے پتا نہیں انہیں کیا ہوگیا ہے چنانچہ سب دوڑتے آئے اور مجھے مردہ پاکر پوری حویلی میں ماتم کا سماں مچ گیا ۔۔۔اس مخصوص قسم کے زہر نے میرے وجود پر کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑا تھا کہ کوئی شک میں مبتلا ہو پاتا ۔۔۔۔ اس رونے دھونے اور ماتم کے دوران کہ جب پورا گاوں تعزیت کے لیے حویلی آ جا رہا تھا زرینہ نے میری خفیہ تجوری میں رکھی ساری دولت ایک پوٹلی میں منتقل اور اپنے عاشق یاسر کے حوالے کردی۔۔۔۔یاسر وہ سب لے کر پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت بمبئی سدھار گیا ۔ وہاں اس نے اس ساری دولت سے ایک خوبصورت سا بنگلہ خریدا ، اپنا کاروبار سیٹ کیا ۔۔۔
اور ایک سال بعد جب سب لوگ میری موت پے رو رلا کے چپ ہوچکے تھے ۔ یاسر نے زرینہ کو اپنے پاس بمبئی بلا لیا ۔۔۔ اور ان دونوں کی شادی ہوگئی۔۔۔۔
موت کے بعد میں 5 سال تک بےحواسی کی کیفیت میں بھٹکتا رہا یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مجھ پر کشف ہوتا چلا گیا کہ میرے ساتھ کیا کچھ ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے ۔۔۔ لیکن تب تک بہت وقت بیت چکا تھا ۔۔۔ یاسر و زرینہ پھر کبھی بمبئی سے لوٹ کر نہ آئے ۔۔۔ اگر آتے تو کبھی زندہ واپس نہ جاتے ۔۔۔۔
اس بات کو 20 برس بیت چکے ہیں۔
یہ حویلی کہ آج جہاں تم کھڑی ہو ، کسی زمانے میں یہ میری کئی جاگیروں میں سے ایک تھی ۔۔۔ لیکن جب یہاں کے ملازموں نے میری موجودگی کو محسوس کرنا شروع کیا تو اسے آسیب زدہ قرار دے کر سبھی یہاں سے بھاگ نکلے ۔۔۔ تب یہ یہ حویلی ویران پڑی ہے اور میں یہیں رہائش پذیر ہوں۔۔۔۔ ” بھوت نے تفصیلا بولتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔
میں خاموش رہی ۔۔۔۔ بالکل خاموش !
” تم کچھ بولتی کیوں نہیں ۔۔۔” اس نے کہا۔
میں پھر سے خاموش رہی۔۔۔
” کچھ تو پھوٹو میں پاگل ہوں کیا کہ جو پچھلے دس منٹ سے تمہیں اپنی کہانی سنا رہا تھا ۔۔۔؟” اب کی بار اس نے غصے میں کہا۔
میں نے ہاتھ سے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔
” اوہ ۔۔۔ معاف کرنا بھول گیا تھا ۔” بھوت نے کہا اور اپنا ہاتھ پھر سے میری طرف لہرایا تو میرے چپکے ہوئے ہونٹ جدا ہوگئے اور میں بولنے کے قابل ہوگئی ۔
” مجھے بہت افسوس ہوا تمہاری کہانی سن کر۔۔۔ کیا تم نے مجھ سے قبل کسی انسان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی ؟” میں نے پوچھا ۔
” اب کوئی یہاں نہیں آتا سب اس حویلی کو آسیب زدہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ، رات کے وقت تو اب سڑک کے اس حصے سے کہ جس کے قریب میری حویلی ہے، وہاں سے بھی کوئی نہیں ڈرائیو کرتا۔۔۔۔اور دن کے وقت میں کسی کے سامنے نہیں آ سکتا ۔” بھوت نے کہا۔
” اور تمہاری حد کیا ہے۔۔۔۔؟ مطلب تم کتنا دور جاسکتے ہو ؟” میں نے پوچھا۔
” کیا مطلب۔۔۔۔؟ ” اس نے کہا۔
” مطلب یہ کہ اگر تمہاری کوئی حد نہ ہوتی تو اب تک تم ممبئی پہنچ کر اپنے سابق بیوی اور اس کے خاوند کو کب کا ختم کر چکے ہوتے۔۔۔” میں نے کہا۔
بھوت نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔۔۔۔
” جہاں میں دفن ہوں۔۔۔ یعنی ایک نزدیکی پرانا قبرستان ۔ وہاں سے سے 20 میل سے زیادہ دور نہیں جا سکتا ۔۔۔ اور بمبئی تو 400 میل دور ہے۔۔۔” بھوت نے کہا۔
” فکر نہ کرو اب تم ۔۔۔۔یاسر کی کہانی ختم سمجھو ۔۔۔ میں خود بمبئی جاوں گی۔۔۔ اور ایک ایسی چال چلوں گی کہ یاسر ۔۔۔ خود ہی چل کر اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر پولیس کے پاس جائے گا ، اور خود ہی اپنے جرم کا اعتراف کرے گا۔۔۔ اور عدالت میں خود ہی خود کو سخت سے سخت ترین سزا دینے کی استدعا کرے گا ۔۔۔” میں نے کہا۔
” اگر تم نے مجھے دھوکا دیا اور ایسا کچھ نہ ہوسکا کہ جس کا تم دعوی کررہی ہو۔۔۔۔ تو شاید میں تمہارے پیچھے تو نہ آ سکوں لیکن پھر انسان پر سے میرا اعتبار ہمیشہ کے لیے اٹھ جائے گا۔۔۔ اور پھر میری حدود میں آنے والے ہر انسان کے میں ٹکڑے اڑا دوں گا۔۔۔ اور اس سب کا گناہ بھی تمہارے سر ہوگا ۔۔۔ ایک ایسا گناہ کہ جو تمہیں کبھی بھی ، کہیں بھی سکون سے جینے نہ دے گا۔۔۔” بھوت نے کہا۔
” جو میں نے کہا ۔۔۔ ویسا ہی ہوگا ۔ عہد کرتی ہوں۔” میں نے کہا ۔
” ہممم شکریہ ۔۔۔۔ کیا میں تمہارے لیے کچھ کر سکتا ہوں ؟ ” بھوت نے کہا۔
” مجھے صبح 11 بجے جگا دینا بس۔۔۔۔” میں نے جمائی لیتے ہوئے کہا اور بستر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کو ایک برس بیت گیا ہے۔۔۔ اگلے روز جاگنے کے بعد میں حویلی سے نکلی اور سڑک کی طرف بڑھ گئی میں نے سہام نگر میں اپنے ایک جاننے والے ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے موبائل سے کال کر کے اپنی لوکیشن بتائی اور وہاں بلا لیا کہ وہ مجھے وہاں سے سہام نگر لے جائے ۔
کار کی بحالی اور واپسی بندوبست میں نے سہام نگر پہنچنے کے بعد کر لیا تھا۔
لیکن۔۔۔۔
کیا میں علی احمد راجپوت کے قاتل کے تعاقب میں گئی ؟ نہیں !
میرا اس سے وہ وعدہ محض سیاسی رہنماوں اور انتخابی امیدواروں کے انتخابی کے دوران کیے جانے والے وعدوں کی طرح تھا۔۔۔جان بچی سو لاکھوں پائے ۔۔۔ میں بھلا اب 20 سال پہلے کا ایک کیس سلجھانے کے لیے خود کو مصیبت میں کیوں ڈالتی ؟
لیکن۔۔۔ کہتے ہیں کہ ہونی کو کوئی روک نہیں سکتا ۔
صرف 6 ماہ بعد میرے لیے حالات کچھ ایسے بم گئے کہ مجھے اسی کیس ، ٹھیک اسی معاملے میں دوبارہ انوالو ہونا پڑا ، اور اب کی مرتبہ مجھے یاسر کو کیفر کردار تک پہنچانا ہی پڑا۔۔۔۔ لیکن یہ سب کیسے ہوا ؟
یہ میں پھر کبھی بتاوں گی۔۔۔۔ ایک اور کہانی میں!