اسلام آباد کے ایک پبلک پارک میں کسی لڑکی کے ساتھ ریپ پر ہمیں تعجب ہو رہا ہے، اور خوف بھی پیدا ہوا یا بڑھا ہو گا۔ لیکن زیادہ خوفناک باتیں اکثر لوگ مِس کر رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ لڑکی اکیلی نہیں تھی، اُس کے ساتھ ایک دوست/بھائی/شوہر یا کولیگ بھی تھا۔ دو نوجوانوں نے اسلحے کے زور پر اُنھیں ایک طرف کیا۔
دوسری خوفناک بات یہ کہ اُنھوں نے لڑکی اور لڑکے سے پوچھا کہ وہ ایک دوسرے کے کیا لگتے ہیں۔
باقی تفصیلات کے مطابق اسلحے والوں نے لڑکے کو مارا پیٹا، لڑکی کو الگ کر کے ایک طرف لے گئے، پیسے اور موبائل وغیرہ لے کر جان چھوڑنے کی پیش کش کے باوجود لڑکی کو بھی مار کر خاموش کروایا……۔
’’تم آپس میں کیا لگتے ہو؟‘‘ یہ تو ہمارے ریاست کے نمائندوں کا پکا جملہ ہے۔ وہ مرد اور عورت کے کپڑوں، ساتھ بیٹھنے کے انداز، عمروں وغیرہ سے اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ آپس میں کیا لگتے ہوں گے، اُن کا نکاح بھی ہوا ہے یا نہیں؟
یہ سوال مدافعت کے بند توڑنے کے کام آتا ہے۔ اگر وہ نکاح شدہ نہ ہوں، محض ڈیٹ پر ہوں یا ویسے ہی گھوم پھر رہے ہوں تو نمبر لے کر ماں باپ کو اطلاع کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
ایک بار پی سی میں کچھ دوستوں سے ملنے گیا جہاں ایک گلوکار دوست نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ آنا تھا۔ اُنھیں ریسیپشن پر ہی روک لیا گیا، کہ آپ کمروں کی طرف جانے والی لفٹ میں سوار نہیں ہو سکتے۔ وہ میاں بیوی نہیں تھے۔ وہ ایک دوسرے کے کیا لگتے تھے؟
ہر کوئی سماج کا ٹھیکے دار ہے۔ ماڈل ٹاؤن پارک ڈیٹنگ کے لیے مشہور ہے۔ ایک دفعہ بچوں کو سیر کروانے لے کر گیا تو وہ جھولے وغیرہ لینے لگے۔ میں اکیلا ٹہلتا ٹہلتا پرندوں کے پنجرے کی طرف چلا گیا۔ ایک گارڈ ہاتھ میں جائے نماز لیے نماز کی تیاری کرتے ہوئے مجھے دیکھ رہا تھا۔ سیدھا میرے پاس آیا اور بولا، ’’ابھی وائرلیس پر اطلاع ملی ہے کہ آپ نے دو لڑکیوں کو تنگ کیا ہے۔‘‘ میں نے تعجب کا اظہار کیا اور پوچھا کہ یہ کب ہوا؟ اِتنے میں میری بیوی اور بچے بھی آ گئے اور دور سے ہی مجھے بلایا۔ میں نے مُڑ کر کہا کہ آتا ہوں اور دوبارہ گارڈ کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ جائے نماز بچھا کر عبادت میں مگن ہو چکا تھا۔
پتا نہیں وہ خدا اور سماج کا کیا لگتا تھا!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...