آو! محبتیں بانٹیں
اس نے جرائم کا ارتکاب کر لیا تھا۔اس کا پہلا جرم یہ تھا کہ وہ ان دیوتاوں کی پرستش نہیں کرتا جن کو سارا شہر پوجتا تھا۔دوسرا جرم یہ کہ وہ نوجوانوں کو بگاڑتا تھا۔اس لیے اس کی سزا موت ہے۔انی ٹس نامی ایک چمڑا فروش اس الزام و سزا کے پیچھے سب سے بڑا محرک تھا۔کیونکہ اس کا بیٹا کھا لوں اور چمڑے کا کام چھوڑ کر علم و فلسفہ کی طرف راغب ہو گیا تھا ۔اور جھوٹے دیوتاوں کی پرستش سے دستبردار ہو گیا تھا۔انی ٹس بیٹے کی گمراہی کا الزام اسی پر لگاتا تھا اور پوری کوشش کی کہ اس کی سزا موت سے کم نہ ہو۔یوں چمڑا اور علم آمنے سامنے آگئے ۔چمڑے کی فتح ہوئی اور علم ہار گیا۔اسے گرفتار کرکے موت کی سزا سنا دی گئی۔
چاہتا تو موت کی سزا سے بچ سکتا تھا۔کیونکہ ریاست کا قانون تھا کہ جو اس ملک سے نکل جائے تو موت کی سزا سے بچ سکتا ہے۔لیکن وہ کہتا تھا
"او میرے جج صاحبان ! مشکل موت سے بھاگنے میں نہیں بلکہ گناہ سے بھاگنے میں ہے ۔گناہ موت سے زیادہ تیز ہے اور جلدی پکڑ لیتا ہے۔موت نے مجھے پکڑ لیا اور بد اعمالی نے میرے مدعیوں کو۔میں سزا قبول کرتا ہوں اور وہ اپنی سزا۔"
اس کی زندگی کا آخری دن آیا تو سارے شاگرد جیل میں ملنے آئے ۔استاد نے اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کر کہا۔موت وہ دروازہ ہے جو سیدھا خدا کے ایوان میں لے جاتا ہے۔اور دوستو ! وہاں کسی کو اس کے خیالات کے باعث موت کی سولی پہ نہیں چڑھایا جاتا۔لہذا تم ہنسو کھیلو اور میرے جانے پر افسوس نہ کرو۔جب تم مجھے قبر میں اتارو گے جان لینا تم میرا جسم دفن کر رہے ہو ،روح نہیں ۔
زہر کا پیالہ اس کے ہاتھ میں دیا گیا۔جیلر کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے ۔شاگردوں کے رونے پہ اس نے کہا صبر کرو اور مجھے شانتی سے مرنے دو۔سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا اور ہمیشہ کیلئے ابدی نیند سو گیا۔ہمارے گورو کو خاتمہ ہو گیا تھا جس کے متعلق میں سچائی سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے لوگوں کو میں جانتا ہوں وہ ان سب سے زیادہ دانا،شریف النفس اور بہترین انسان تھا۔
(افلاطون کی تصنیف "فیڈو "سے اقتباس )
اختلاف رائے سب کا حق اور فطرتی عمل ہے۔لیکن خیالات کے اختلاف میں کسی جان لینا ناقابل معافی جرم ہے۔قیامت نام ہی سزا و جزا کا ہے۔سب اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں ۔ترازو لگایا جائے گا۔میزان کیا جائے گا۔وہ سزا بھی دے گا ۔جزا بھی دے گا۔لیکن کسی کی جان لینے کا اختیار ہمیں کسی صورت نہیں دیا۔برداشت کی قوت پیدا کریں اور صبر کو معیار زندگی بنائیں ۔محبتیں بانٹیں ۔خیالات کے اختلاف کو تعمیری سطح پہ لے جائیں ناکہ تخریبی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“