آنکھ جسم کا ایک ننھا سا عضو مگر کام میں اعلی ،آسمان کی طرف اٹھے تو ستاروں پر نظر دل پر جا پڑے تو جگر کے آر پار اور جو کسی چہرے کی تابانی کو سمیٹ لے تو ہجر و فراق کے اشک گرانے میں سب سے اول، ہمارے دکھ ہوں یا سکھ آنکھوں سے ہی پہلا اظہار ہوتا ہے،بے حسی ظاہر کرنا وتب بھی سفاک آنکھیں منظر پر آتی ہیں ،آنکھ ہی تو ہے جو ہوس کو ملبوس میں بھی کچھ نہ کچھ نظر آہی جاتا ہے،آنکھ کی خوبی ہے کہ ماضی کو بھی ہمارے سامنے زندہ وجاوید کر دیتی ہے اور گزرا وقت دماغ کے ہر ریشے میں پھر سے لہو بن کر دوڑنے لگتا ہے ،ننھی سی آنکھ کی پتلی قدرت کا انمول بھید ہے جس میں وسیع کاٸنات چھی کبھی آنکھیں پکار اٹھتی ہیں مگر یہ آواز ہر کوٸ نہیں سن سکتا،نظاروں کی دید کے شوق انسان کو موسموں اور رنگوں کے نۓ معنی سے روشناس کردیتی ہیں،پتھر دلوں میں گداز پیدا ہو جاتا ہے۔
آنکھوں کا سفر جب روح کی جانب ہو توقبر ستانوں میں میلے لگ جاتے ہیں اور جیتے جاگتے لوگ صدیوں پہلے رخصت ہوۓ لوگوں سے ملاقات کرنے چل پڑتے ہیں،زمان ومکان کے فاصلے مٹ جاتے ہیں، یہی آنکھیں اگر ظاہری نگاہ تک محدود رہ جاۓ توانسان کو اپنا آپ اتنا حسین وجمیل لگتا ہے کہ تفاخر کسی اور چیز کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں دیتا اور یہیں سے فرعون بننے کے سفر کا آغاز ہو جا ہے جو انسانی زندگی میں کم ترین سطح ہے