“اپنے بھائی کی آنکھ کا تنکا دیکھ کیوں دیکھ رہے ہو؟ اپنی آنکھ کا شہتیر نظر کیوں نہیں آتا؟”
امریکی ریڈیو شو کے ہوسٹ رش لِمبا منشیات پر سخت سزائیں دینے کی بات بڑے زور و شور سے کیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ منشیات رکھنے والے کو جیل میں سڑنے کے لئے پھینک دو، خواہ کوئی بھی ہو۔ 2003 میں ان کے پاس سے منشیات برآمد ہو گئیں۔ منافق؟
امریکی کانگریس مین ایڈ شروک ہم جنس پرستوں کے حقوق کے شدید مخالف تھے۔ اگست 2004 میں ان کی آڈیو ٹیپ منظرِ عام پر آ گئی جس میں وہ خود کسی سے اسی قسم کی گفتگو کر رہے تھے۔ منافق؟
ہمیں بڑا ہی مزا آتا ہے، جب کوئی اخلاقیات کا پرچار کرنے والا اسی چیز کا شکار نکل آئے جس کے خلاف وہ بات کرتا ہے۔ ہم ہنس کر ایک دوسرے کو یہ بات بتاتے ہیں۔ ایک لطیفہ، جس میں اس کی کہی تمام باتیں اس کا متن اور انہی کی پاسداری میں اس کی اپنی ناکامی اس کی پنچ لائن جس پر ہمارا قہقہہ چھوٹ جاتا ہے۔ اگر ایسا منافق ہم سے مخالف خیال رکھتا ہو، تو یہ سکینڈل ہماری گپ شپ کا حصہ بنتے ہیں۔ انہیں دوسرے کو بتا کر ہم مل کر ہنستے اور سر ہلاتے ہیں۔ اکٹھی آنے والی ہنسی سے اس مسئلے پر ہماری اپنی پوزیشن واضح ہو جاتی ہے اور دوسرے سے بانڈ بن جاتا ہے۔
لیکن ذرا ٹھہر جائیں، اس بات پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمام وقتوں کے تمام کلچرز سے آنے والی دانائی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم سب منافق ہیں۔ دوسروں کی منافقت کا مذاق اڑانا خود ہماری اپنی منافقت کو دوچند کر دیتا ہے۔ سوشل سائیکولوجی میں حال میں ہونے والی تحقیق اس کے مکینزم سے آگاہ کرتی ہے۔ اس سے نکلنے والے نتائج تنگ کرنے والے ہیں۔ یہ ہمارے اچھا ہونے اور اخلاقی طور پر حق پر ہونے کے یقین کو جھنجھوڑتے ہیں۔ لیکن اس سے نکلنے والے نتائج ہمیں آزاد بھی کرتے ہیں۔ اپنے متقی ہونے اور اپنے حق پر ہونے کے خطرناک یقین سے۔
کیا ہم سب منافق ہیں؟ قدیم دانائی سے لے کر جدید سائیکولوجی تک سب کا اتفاق ہے کہ ہاں۔
جدید سائیکلولوجی اس میں ایک اور فقرے کا اضافہ کرتی ہے۔ کسی کو جھنجھوڑ کر بھی بتایا جائے کہ اس کا اطلاق خود اس کے اوپر بھی ہوتا ہے تو اس کا امکان زیادہ نہیں کہ وہ اس کو تسلیم کر پائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعاون، ایثار، خودغرضی، لالچ کی سٹڈی مختلف گیمز کی ذریعے کی جاتی ہیں۔ اس پر کی جانے والی تحقیق ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہمیں غرض اس سے ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سمجھتے ہیں نہ کہ اس سے کہ ہم خود کیسے ہیں۔
اچھی شہرت کیسے حاصل کی جائے؟ انصاف پسند رویہ اپنانا اس کے لئے اچھا طریقہ ہے لیکن زندگی اور نفسیات کبھی کبھار نظر آنے اور ہونے میں علیحدگی پیدا کر دیتے ہیں۔ کینساس یونیورسٹی کے ڈین بیٹسن نے اس پر تجربہ کیا جس کے نتائج بدصورت تھے۔
اپنی لیبارٹری میں اپنے طلباء کو تجربے کے لئے لے کر آئے۔ ان کو بتایا گیا کہ یہ تجربہ ٹیم ورک پر کیا جا رہا ہے اور طریقہ کار سمجھایا گیا۔ دو لوگوں کی ٹیم ہو گی۔ ان سے سوالات پوچھے جائیں گے اور ٹھیک ہونے پر ایک ریفل ٹکٹ ملے گا جس سے وہ ایک بڑا انعام جیت سکتے ہیں۔ لیکن یہ ریفل پرائز صرف ایک ممبر کو ملے گا۔ دوسرے کو کچھ بھی نہیں۔ یہ فیصلہ کہ یہ ٹکٹ کس کو ملے؟ یہ آپ نے کرنا ہے۔ آپ کا پارٹنر اس وقت دوسرے کمرے میں ہے۔ اس کو یہ بتایا جائے گا کہ یہ فیصلہ چانس پر ہوا ہے۔ آپ جو بھی فیصلہ کرنا چاہیں، آپ کی اپنی مرضی۔ اور ہاں، اس سٹڈی میں اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ منصفانہ طریقہ سکہ اچھال کر ہے۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو سکہ وہ پڑا ہے۔
اس کے بعد سٹوڈنٹ کو فیصلہ کرنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا آدھے سٹوڈنٹس نے سکہ استعمال کیا۔ بیٹسن کو یہ کیسے پتا لگا؟ سکہ جس لفافے میں تھا وہ کھولا گیا تھا۔ جن طلباء نے سکہ استعمال نہیں کیا تھا، ان میں سے 90 فیصد نے اپنے لئے انتخاب کیا تھا۔ اور جنہوں نے سکہ استعمال کیا تھا؟ ان کے لئے پرابیبلٹی کے قوانین معطل ہو گئے تھے۔ ان میں سے بھی 90 فیصد نے اپنے لئے ہی انتخاب کیا تھا۔
ان طلباء کو بیٹسن نے کچھ ہفتے پہلے سوالنامے بھرنے کو دئے تھے (یہ ان کی نفسیات کی کلاس کے سٹوڈنٹ تھے) تا کہ ان کی اخلاقی شخصیت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ وہ طلباء جو دوسروں کے بارے میں پرواہ کرنے اور معاشرتی ذمہ داری کے بارے میں زیادہ خیال کرتے تھے، ان میں سے زیادہ کا امکان تھا کہ وہ سکہ اچھالیں گے لیکن آخری فیصلہ کرنے میں ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یعنی جن کا خیال تھا کہ ان کے لئے اخلاقیات بہت اہم ہیں، انہوں نے “ٹھیک کام” کرنے کی کوشش تو کی اور سکہ اچھالا لیکن جب نتیجہ ان کے خلاف نکلا تو انہوں نے اس کو نظرانداز کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی جواز بنا لیا۔ نظر آنے اور حقیقت میں ہونے کے اس فرق کو بیٹسن “اخلاقی منافقت” کہتے ہیں۔
تجربے کے بعد اکثریت نے رپورٹ کیا کہ انہوں نے فیصلہ کرنے کے لئے “منصفانہ” طریقہ استعمال کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی اس پہلے سٹڈی کے بعد بیٹسن نے مزید تجربات کئے۔ سکے کی تبدیلی، اس کے سر اور دُم کو اچھی طرح نشان لگانا جیسے چیزوں نے نتائج پر فرق نہیں ڈالا۔ ایک چیز نے فرق ڈالا۔ تجربے سے پہلے منصفانہ طریقے کی اہمیت بتانا اور کمرے میں بڑا سا آئینہ رکھ دینا جو عین اس سٹوڈنٹ کے سامنے ہو۔ جب انصاف پسندی کی اہمیت پر سوچنے پر مجبور کیا گیا اور سامنے خود اپنا آپ چیٹنگ کرتے نظر آیا تو لوگوں نے چیٹنگ کرنا روک دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ خودغرض ہوتے ہیں، پکڑے جانے کا خوف نہ ہو تو چیٹنگ کرتے ہیں۔ یہ تو کوئی بڑی دریافت نہیں لیکن جو چیز اہم ہے، وہ یہ اس طرح کی تمام سٹڈیز میں شرکاء یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔ اصل زندگی میں بھی ایسا ہی ہے۔ جو ڈرائیور آپ کو گاڑی چلاتے ہوئے کٹ کروا گیا ہے یا پھر عقوبت خانے چلانے والے متشدد لوگ۔ یہ سب اپنی طرف سے یہ کسی اچھی وجہ سے ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جو زیادہ شدت پسند ہوتے ہیں، ان کو اپنے اچھا ہونے پر سب سے زیادہ یقین ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رابرٹ رائٹ اس بارے میں لکھتے ہیں، “انسان کی سب سے خوبصورت چیز اس کا اخلاقی آلہ ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ٹریجڈی اس کا غلط استعمال ہے۔ انسان کی سب سے بدصورت چیز اس غلط استعمال سے ناواقفیت ہے”۔
اگر رائٹ ٹھیک ہیں تو دانشوروں کی نصیحت کہ دوسروں کی منافقت پر ہنسنا بند کر دیں، کام نہیں کرتی۔ جیسے کسی ڈیپریشن میں مبتلا شخص کو یہ کہنا کہ اس سے باہر نکل آوٗ بے کار ہے، ویسے ہی ہم اپنے ذہنی فلٹر کو محض قوتِ ارادی سے نہیں بدل سکتے۔ اس کے لئے اپنے ذہن کے ہاتھیوں کو لمبی تربیت دینا پڑتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منافقت کا علاج ذہنی عارضوں کے علاج سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ ایک ڈیپریشن کے شکار مریض کو یہ تسلیم کرنے میں مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ ڈیپریشن کا شکار ہے۔ لیکن منافقت؟ یہ تو صرف دوسروں میں ہوتی ہے۔
میری آنکھ میں کوئی شہتیر نہیں۔