یہ میری کم نصیبی ہے کہ مجھے آنس معین سے بالمشافہ ملاقات کا شرف حا صل نہ ہو سکا۔ وہ اتنی جلدی سب سے روٹھ کر چلا جا ئے گا۔ ایسا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اس کی پہلی غزل ہی اس کی شنا خت بن کر میرے سا منے آئی۔
وہ میرے حال پہ رویا بھی، مسکر ایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے، پرایا بھی
اس کی یہ غزل پڑھ کر مجھے شدت سے احساس ہوا تھا کہ عصری حسیت کے اس نوجوان شاعر نے اپنی شمعِ فکر اپنے خونِ جگر سے روشن کر رکھی ہے اور اپنی ذات کے کرب کو لفظوں میں ڈھال کر اپنے نوکِ قلم سے اسے سطح قرطاس پر بکھیرتا ہے. مجھے اس کی طبیعت میں حزن، ما یو سی، محرومی، ماندگی اور عدم تحفظ کے احساس کے سایے بہت گہرے لگے۔ اس کی بعد کی تخلیقات نے بھی جو میری نظر سے گذریں، میرے اس یقین پر صاد کیا کہ آنس معین زمین، ذات اور کائنات کا شا عر ہے اور اس نے اس تثلیت کو اپنے جسم و جان میں پوری طرح جذب کر کے اور جزوِ بدن بنا کر فکری سطح پر ابھارا ہے.
ہے میرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے
کچھ آندھیاں بھی اپنی معاون سفر میں تھیں
تھک کر پڑاؤ ڈالا تو خیمے اکھڑ گئے
مجھے آنس معین کے اندر ایک ایسا جوالا مکھی سلگتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ جس میں روشنی بھی ہے اور تپش بھی۔ اس کے فکری رویوں میں ایک طرف اگر جذبوں کی برقِ خاطف ہے تو دوسری طرف خوف و خدشات کی اندھی اور تا ریک غاریں ہیں، جن میں جھا نکنے سے ڈر لگتا ہے۔ وہ اپنی ذات کے اندر بہت گہرا اتر گیا لگتا ہے، جہاں سے چاروں طرف ویرانوں کے منظر دکھائی دیتے ہیں اور باہر کھلنے والی کھڑکی بند نظر آتی ہے۔
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنس
باہر کھلنے والی کھڑ کی بند پڑی ہے
….
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
شاید اسی لیے اس کی شاعری میں مہیب گنبدوں کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے اور ہمارے باطن کے نہاں خا نوں میں اتر جاتی ہے.
گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے
آنس کی شاعری میں جہاں ذات کی پر اسراریت کا عرفان ہے، وہاں دل گرفتگی کی بھی بھرپور عکاسی ہے اور ذاتی زندگی میں پایا جانے والا انجانا خوف بھی اس کی شاعری پر چھایا ہوا لگتا ہے۔
بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری
میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں
اپنے غموں، محرومیوں، بے چارگیوں، اداسیوں اور تنہائیوں کو غزل کا موثر لہجہ عطا کر کے اس نے اولین مراحل میں ہی اہل ادب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ عمر رسیدہ، تجربے سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور قد وقامت والا نظر آتا ہے۔ وہ آنے والی صدی کا شاعر ہے، جو شعر و سخن میں نیا رنگ و آہنگ لے کر آیا اور پا ئیدار نقش چھوڑ گیا۔
آنس معین کے کلا م سے یہ بھی ظاہر ہو تا ہے کہ اس نے اندر کی دنیا میں اتر جانے کے باوجود باہر کی دنیا کو بھی بہ غور دیکھا ہے اور مختلف خارجی عوامل کو شعری تو انائی کے طور پر برتا ہے.
سب لوگ سوالی ہیں، سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک رِدا دیں تو کسے دیں
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
سوچ رہے ہو سو چو لیکن بول نہ پڑنا
دیکھ رہے ہو شہر میں کیسا سناٹا ہے
آنس کی شاعری میں عرفانِ ذات کی جلوہ گری تو ملتی ہے مگر وہ اندر اور باہر کے تضادات کی زد میں آیا ہوا بھی لگتا ہے اور اپنی مدا فعت کے لیے کوشاں بھی نظر آتا ہے۔
کبھی میں سورج کو دوں صدا تیر گی کے ڈر سے
کبھی یہ سوچوں کہ برف کا ہے مکان اپنا
آنس کا شعری سفر دراصل تلاش و جستجو کا سفر ہے. کبھی نہ ختم ہو نے والا لمبا سفر.
بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمھارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
بھری ہوئی بیاض کا سادہ لگنا آنس معین کی جستجوئے مسلسل کا غماز ہے۔ وہ جتنا آگے بڑھا ہے اسے اتنا ہی وسعتوں کی لا متناہیت کا احساس ہوا ہے۔ وہ خود اپنی ذات میں بھی ایک بحر بےکراں تھا۔ اندر سے پر سکون، شا نت اور با ہر سے متلاطم. یہ شعر آنس کی اس شنا خت کا مظہر ہے۔
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
آنس معین کا بیش تر کلام ان کی ذات کا الم نامہ ہے۔ جس کا کرب قاری کے دل میں منتقل ہو جاتا ہے اور اسے بھی مسلسل کرب میں مبتلا کردیتا ہے. اس کی شا عری میں شگفتگی، یاسیت اور اضمحلال کی تہیں جمی نظر آتی ہیں۔ غم اس کے رگ و پے میں اترا ہو ا لگتا ہے. اس نے زندگی کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے اور جب کرب نا قابلِ بر داشت ہو گیا تو اس نے اس کرب کو مجسم کر کے اشعار میں ڈھال دیا ہے۔
عجب اند از سے یہ گھر گرا ہے
مِرا ملبہ مِرے اوپر گرا ہے
اس کے بعض اشعار میں فر شتۂ اجل کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔
انجا م کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہا نی بھی سنائے گا کو ئی اور
رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں
جا ئے اماں اک اور بھی ہو تی ہے گھر کے بعد
وسعتِ دریا میں گم ہو جاؤں گا
ایک بچے کی طر ح سو جاؤں گا
مندرجہ بالا اشعار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسے دروازے پر موت کی دستک سنا ئی دے رہی تھی۔ اس نے اسے زیادہ انتظار کی زحمت نہیں دی اور خود ہی دروازہ کھول دیا۔
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں، اور سفر تمام ہوا
(مراسلہ: شفیق جے ایچ)