آج – 5؍فروری 1986
پاکستان کے ممتاز شاعر، محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کرنے والے معروف شاعر " آنسؔ معین صاحب " کا یوم وفات…
آنسؔ معین، 29؍نومبر 1960ء میں پیدا ہوئے ۔ آنس معین کے والد کا نام "فخر الدین بلے" تھا ۔ آنس معین نے 17 سال کی عمر میں 1977 میں شعری دنیا میں قدم رکھا وادئ ادب کو سونا کرنے والے نے صرف 9 سال شاعری کی۔
5؍فروری 1986ء کو 26 سال کی عمر میں خودکشی کر کے اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ گیا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر آنسؔ معین کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
—
ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا
دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے
—
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
—
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
—
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
—
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے
—
گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے
—
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
—
اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ
باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے
—
یہ انتظارِ سحر کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی
—
یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے
آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا
—
گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں
وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی
—
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور
—
عجب تلاشِ مسلسل کا اختتام ہوا
حصولِ رزق ہوا بھی تو زیرِ دام ہوا
—
آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصارِ جسم
کب تک اسیرِ خوشبو رہے گی گلاب میں
—
گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو
وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں
—
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
—
آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا
آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا
—
اک کربِ مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں
مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں
—
بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا
تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا
—
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
—
اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا
وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا
—
گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن
پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو
—
کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور
—
درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے
دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا
—
میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
—
تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر
کتابِ زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد
—
یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہوگا
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا
—
یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور
—
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی
عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی
—
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
آنسؔ معین
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ