’’آنگن‘‘ کا عمرانیاتی شعور
خدیجہ مستور کا ناول آنگن ایک ایسے آزاد خیال گھرانے کی کہانی ہے جہاں مختلف نظریات سے تعلق رکھنے والے افراد بستے ہیں۔ جو اپنے مزاج، رویوں اور خیالات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جو بے چین، پریشان ہیں، تذبذب کا شکار ہیں۔ دُہرے رویوں کے ساتھ اپاہج معاشرتی نظام نہ جانے کس سمت جا رہا ہے۔ اس ناول میں فرد کے وہی تجربے، وہی مسائل دکھائی دیتے ہیں جو فرد کے لیے چیلنج ہیں اور فرد ان کا کسی نہ کسی طور پر مقابلہ کر رہا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرے کو ’’آنگن‘‘ میں گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ فرد کے ذاتی، خاندانی، رومانی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل اپنے اپنے انداز میں سامنے آتے ہیں یہ ناول یوپی کے متوسط مسلمان گھرانے کی جدوجہد آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں ایک گھر کے ’’آنگن‘‘ میں اشاراتی انداز میں برصغیر کا نقشہ بچھا ہوا ہے، جس میں جلد ہی نئی تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔ وہ معاشرتی نظاموں کی بنیاد پڑنے والی ہے۔
’’آنگن‘‘ میں خاندان کے افراد سے کہانی بنتی ہے اور اپنے مسائل لیے کردار آگے بڑھتے ہیں۔ کوئی فرنگی پسند ہے، کسی کے لیے معاشرتی مرتبہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کوئی خاندان سے بغاوت کر رہا ہے۔ کوئی کانگریس کے لیے جان دینے پر تلا ہوا ہے۔ کوئی مسلم لیگ کے لیے لڑ مرنے کو تیار ہے کہیں رومانس نظر آتا ہے، کوئی اَنا کی آگ میں جل رہا ہے، کوئی اتنا قنوطی ہو چُکا ہے کہ زندگی کے تمام امکانات اس کی نظر میں ختم ہو چکے ہیں اور پھر خودکشی کی واردات سامنے آتی ہے۔
خاندان برصغیر کی معاشرتی زندگی کا سب سے مستحکم ادارہ ہے جس کے منتشر ہو جانے کا احوال فن کارانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور اپنے ادبی عقائد کے حوالے سے ترقی پسند ہیں مگر ذات کے حوالے سے مشرقی عورت، جو معاشرے کے نئے مطالبات کو سمجھتی ہیں، معاشرے کی فرسودگی پر پتھر مارتی ہیں۔ انہوں نے روایتی کہانی کہنے کے انداز کو اپناتے ہوئے بیمار ہندوستانی کو سمجھا سمجھایا ہے۔
آنگن کے حوالے سے خدیجہ مستور نے ادب کے ترقی پسند مزاج کو وہ حقیقی شعور دیا جو اس کی بنیاد میں پوشیدہ تھا۔ یہ وہ معاشرتی شعور تھا جو معاشرے کی فرسودگی اور بے راہ روی کے خلاف تھا۔ ’’آنگن‘‘ کی مصنفہ نے اپنے قلم سے یہ بات ثابت کر دی کہ افراد ہی معاشرہ بناتے ہیں اور اپنے مثبت اور منفی رویوں کے ساتھ اس کو تعمیر یا تخریب یا انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ ناول میں گروہی آسودگی کہیں بھی نظر نہیں آتی، گروہی بے چینی ہر طرف بکھری دکھائی دیتی ہے جو فردیاتی بدنظمی بھی ہو سکتی ہے اور خاندانی انتشار بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال یہ انتشار خارجی عوامل کے ردِعمل سے سامنے آتے ہیں جو اس وقت کی معاشرتی فضا میں پھیلے ہوئے تھے۔
’’آنگن‘‘ کی کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب تقریباً آدھی صدی آخری سانس لے رہی تھی۔ ادبی حوالے سے یہ اس عہد کا وسیع عمرانیاتی منظر نامہ ہے جہاں برصغیر کا فرد تضادات کا شکار ہو کر نئے معاشرتی مطالبات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ اس گھر کی کہانی ہے جہاں ہر کردار اپنے رویوں سے ایک الگ کہانی تشکیل دیتا ہے۔ ہر مسئلے پر ہر ایک کی رائے الگ ہے۔ نئے معاشرتی چیلنج ان کو تضادات میں گھیرے ہوئے ہیں۔
عالمگیر سطح پر خاندان کو معاشرے کا پہلا اور اہم ادارہ تسلیم کیا گیا ہے جس کی تاریخی اہمیت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ناول میں مشترکہ خاندان نظر آتا ہے۔ جو خارجی عوامل اور معاشرتی تبدیلی سے بکھر کر مختلف اجزاء (ایک اکائی) میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ان دنوں برصغیر میں خاندان کے مختصر ہو جانے کا تجربہ نیا نیا تھا۔خاندانی ساخت میں دراڑیں آ جانے سے جو مسائل پیدا ہوئے وہ یہاں کے بسنے والوں کے لیے نئے تھے اور اس سے زیادہ پریشان کن۔۔۔ خارجی حالات نے خاندان جیسے مستحکم ادارے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ مثلاً ناول میں صفدر بھائی علی گڑھ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں۔ اسرار میاں کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔
پورے ناول میں مسابقت کی نوعیت نمایاں طور پر سامنے آتی ہے۔ دیگر گروہوں (انگریز اور ہندؤوں) سے آگے بڑھ جانے کا عمل صاف نظر آ جاتا ہے۔ یہ مسابقت نئے معاشرتی نظام کا حصول ہے جو جغرافیائی صورت میں حاصل کرنا ہے، جس کے لیے والد صاحب تو کانگریس سے ہمدردیاں رکھتے ہیں جبکہ جمیل مسلم لیگ کو پسند کرتا ہے۔ مسابقت ہر اُس چیز کے لیے ہوتی ہے جو کمیاب ہو۔ یہ کمیاب چیز آزادی ہے، جس پر کانگریس اور مسلم لیگ مختلف زاویوں سے سوچتی ہیں جبکہ دونوں کا مطمعِ نظر ایک ہی تھا یعنی برصغیر کی آزادی کا حصول یہ فرد کی مسابقت نہیں تھی بلکہ خالصتاً لاشخصی مخالفت تھی جو دو میں سے ایک نظریے کو برصغیر میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی تھی۔
تعاون معاشرتی سطح پر ہر معاشرے کی ضرورت رہا ہے اور نظامِ معاشرتی حرکیات اس نظریے کے ساتھ چلتا ہے۔ ایک نظام سے تعاون کرتے ہوئے اماں کے بھائی انگریز عورت سے شادی کر لیتے ہیں جس کے صلے میں انہیں سول سروس مل جاتی ہے۔ صفدر پاکستان آ کر آزادی اور نئے وطن کی تعمیر میں حصہ لینے کو یکسر فراموش کر دیتا ہے اور ایک لالچی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے، وہ کارخانے بنانے اور پرمٹوں کے چکروں میں پڑ کر حالات سے سمجھوتا کر لیتا ہے اور اپنے وہ تمام آدرش توڑ دیتا ہے جو اس نے ایک غلام معاشرے میں تشکیل دئیے تھے اور جس کے لیے برصغیر کے لوگوں نے لاتعداد قربانیاں دیں۔
تصادم کہیں نہ کہیں ہر ناول میں ہوتا ہے۔ ’’آنگن‘‘ میں نظریاتی اور شخصی تصادم نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ تصادم عموماً مسلسم نہیں ہوتا۔ مثلاً ناول میں جس معاشرتی اور سیاسی صورت حال کا تذکرہ ہے تو یہ وہی جنگ ہے جو سر سید احمد خان نے شروع کی تھی۔ جب پہلے انگریز نے ہندوستان میں قدم رکھا تو اسی روز سے اس جنگ کی ابتداء ہو چکی تھی۔ اشاراتی طور پر گھر کے آنگن سے نظریاتی تصادم شروع ہوتا ہے جو دو بڑے سیاسی گروہوں کے درمیان ہے۔ آنگن میں بیٹھ کر بحث و مباحثہ ہوتا ہے یعنی گھر ایک لاشخصی تصادم سے دو چار ہے دراصل یہ نظریات کی مسابقت تھی جو تصادم کا سبب بنی اور یہی تصادم ایک نئے معاشرتی نظام کی بنیاد بنا۔
ناول میں انحراف جگہ جگہ پر محسوس ہوتا ہے۔ یہ انحراف بنیادی طور پر عمرانیاتی ہے جو مروجہ معاشرتی معمولات سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ ’’آنگن‘‘ میں جس معاشرے کی بات کی گئی ہے وہ ایک پسماندہ معاشرہ ہے جہاں پر انحراف گناہ سمجھا جاتا ہے۔ خدیجہ مستور نے جس ادبی ماحول میں آنکھ کھولی وہ معاشرتی بغاوت کا دور تھا۔ مصنفہ کو غالباً اس بات کا شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کا علم تھا کہ اس کا معاشرہ بھی ترقی پذیر نہیں جہاں انحراف کرنے والوں کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو اور ان کے عمل کو اہمیت دی جاتی ہو۔ ناول میں انحراف کی کئی صورتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً صفدر کی ماں مروجہ جاگیرداری نظام سے انحراف کر کے ایک عام کسان سے شادی کر لیتی ہے۔ جب پریشان حال صفدر لاہور آ کر اپنی محبوبہ کا عکس عالیہ میں دیکھتا ہے تو وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ عالیہ صفدر کو پہلے والا صفدر سمجھتی ہے، جو اعلٰی کردار نمونہ ہوتا ہے مگر جب عالیہ پر اس کی مفاہمت پسندی کا انکشاف ہوتا ہے تو وہ اس کو پسند کرتے ہوئے بھی اس سے شادی سے انکار کر دیتی ہے۔ جمیل اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے۔ وہ فوج میں بھرتی ہو کر وہاں سے استعفٰے دے دیتا ہے۔ اِدھر عالیہ اور اس کی والدہ سب گھر والوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان ہجرت کر جاتی ہیں۔
معاشرتی تبدیلی کا اظہار ’’آنگن‘‘ میں اس طور پر ہوتا ہے کہ خاندان سے لے کر پورا برصغیر ایک تبدیلی کا خواہاں ہے، جو نظریہ حیات بھی ہے۔ ناول میں معاشرتی تبدیلی پاکستان کا وجود میں آنا ہے۔ ایک نیا معاشرتی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے، جو ٹوٹا پھوٹا ہے مگر اس کی شناخت کسی نہ کسی طور پر ہے۔ نئے معاشرتی نظام میں تخریب سامنے آتی ہے جس میں چچا کا قتل، گھر کا اُجڑ جانا، اسرار میاں کو گھر سے نکال دینا۔ یہ تمام واقعات معاشرتی تبدیلی اور نئے نظام کو حاصل کرنے کی کوشش میں تخریب کاری ہے جو ہر نئے معاشرتی ڈھانچے میں دیکھنے پڑتے ہیں۔ معاشرتی تبدیلی عموماً زندگی کے تسلیم شدہ نمونوں کی تبدیلی ہے۔ ناول میں ایک اجتماعی تبدیلی سامنے آتی ہے۔ معاشرتی تبدیلی چند افراد کی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ اجتماع کی تبدیلی کو معاشرتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ چھمی ناول میں اپنی لا اُبالی زندگی کے باوجود بچوں کو جمع کر کے جلوس نکالتی ہے۔ یہ نعرہ کہ ’’بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ اس بات کا اشارہ ہے کہ نئے معاشرتی نظام کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔ جو ایک بڑی تبدیلی کے بعد ہی حاصل ہو گا۔ ناول کا تمام تر معاشرتی حصار حرکی ہے اور سکونی معاشرے میں ان نظریات کو اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ بٹوارے کے بعد پاکستان میں معاشرتی تبدیلی کی نوعیت میں فرق تھا جبکہ پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرنے والوں کے مسائل دوسرے تھے۔
دو ثقافتوں کی جنگ، سیاسی نظریات کی جنگ کا روپ دھار کر سامنے آتی ہے جہاں سیاسی آزادی کے پس منظر میں مٹکاف، بڈسن ڈائر، سراج الدولہ، بہادر شاہ ظفر اور گاندھی جی تھے۔ یہ گروہی شناخت تھی جو ناول کے مختلف کردار مختلف صورتوں میں محسوس کرتے تھے جبکہ ثقافتی تصادم کی کیفیت ہندو، مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان تھی۔ سیاست ثقافت نہیں ہوتی مگر سیاست کا رنگ ڈھنگ اور افراد پر اس کے اثرات ثقافت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ناول میں ثقافتی وصف (خاصا) تمام کا تمام یو۔ پی کے مسلم گھرانے کا ہے جہاں کی بودوباش ایک جیسی ہے مگر نظریات اور زندگی برتنے کا انداز مختلف ہے۔ ثقافتی عناصر جو معاشرے کا لازمی اور آفاقی جز ہے۔ وہ ’’آنگن‘‘ سے گھرانے میں مکمل طور پر موجود ہے۔ ثقافتی مرکب دراصل چند ثقافتی خواص ہوتے جو مربوط معاشرتی، افعال کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یو۔ پی کی معاشرت بلحاظ مذہب تمام مسلم گھرانوں میں ایک جیسی ہے جبکہ ثقافتی خلقیہ (ETHOS) صرف مذہنی تصوّر ہے جو ہندو معاشرت سے مختلف ہے۔ پورے ناول میں ثقافتی تسلسل اس طور پر دکھائی دیتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے والی مسلمانوں کی عظمت کو ایک خطہ زمین پر دوبارہ شناخت کیا جا سکے۔ ناول پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کرداروں کی تمام کی تمام بے چینی مسلم ثقافت کا احیاء ہے۔ وہ برصغیر میں مسلم ثقافت کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ عالیہ، اس کی ماں اور صفدر کا پاکستان آنا نئے ’’ثقافتی علاقے‘‘ میں پناہ لینے کا مسئلہ ہے۔ جہاں ان کو اپنی مرضی سے زندگی گذارنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، گروہی ’’ؑصبیت‘‘ بھی اس ناول کا ایک اہم حوالہ ہے کیونکہ مسلمانوں نے ثقافتی اور نسلی اعتبار سے برصغیر میں رہنے والے دوسے مذاہب کے افراد سے اپنے آپ کو جداگانہ طور پر شناخت کروایا۔ عصبیت کا ایک اصول یہ ہے کہ وہ دیگر گروہوں سے اپنے گروہ کو اعلٰی اور برتر جانے چنانچہ کلی طور پر عصبیت کے تصور کو ناول میں کہیں اہمیت حاصل نہیں۔ برصغیر کے ایک بڑے معاشرے کینوس پر مسلمان ایک داخلی گروہ کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
’’آنگن‘‘ میں اختصار کے ساتھ برصغیر کے حوالے سے واقعات و حالات کا اچھا خاصا عمرانیاتی تجربہ دکھائی دیتا ہے۔ جہاں مسلم گھرنے کے تہذیبی اور ثقافتی رویوں کو بیان کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور ایک بڑے عمرانیاتی سیاق کو نظریاتی طور پر ڈائریکٹ پیش کرتیں تو ان کی بات بے وزن ہوتی، اُنھوں نے مقصدیت کو سامنے رکھتے ہوئے وقت کے ایک حصے کو گرفت میں لے کر ایک طویل کہانی لکھی جو ’’آنگن‘‘ کی صورت میں سامنے آئی۔ ناول میں یہ بین الثقافتی موازنہ بھی سامنے آیا۔ یہ اس زمین پر لکھا ہوا ناول ہے جہاں مختلف نسلوں اور تہذیبوں کے افراد آباد ہیں اور معاشرتی اور ثقافتی روایت ان سب کی ایک جیسی ہے۔ ناول کے ڈھانچے کو عمرانیاتی نقطہ نظر سے ترتیب دیا گیا ہے اور ’’مائیکر اپروچ‘‘ کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ یہ عمرانیاتی اصول ہے کہ اگر کسی مسئلے پر سوچا جائے‘ رائے دی جائے یا تحقیق کی جائے تو ضروری ہے کہ اس کے جز کو لے کر مطالعہ کیا جائے۔ اگر کوئی صاحب پاکستانی ثقافت پر کام کر رہے ہیں تو انھیں پہلے بروہی یا ارائیں ثقافت پر کام کرنا ہوگا۔ اور پھر آہستہ آہستہ پاکستانی ثقافت کے خدوخال تلاش کرنے پڑیں گے۔ اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا پورے مسئلے کو انہماک کے ساتھ سمجھتا ہے اور گہرائی میں جاتا ہے۔ اسی طرح ’’آنگن‘‘ کو بھی خاندان (معاسے کی بنیادی اکائی) سے شروع کیا گیا اور آہستہ آہستہ ناول میں پورے برصغیر کی کیفیت سامنے آ گئی۔ ناول میں مختلف کہانیاں ہیں۔ جن کے مربوط ہونے سے ناول تشکیل پاتا ہے۔
’’آنگن‘‘ میں ہر اُس واقعے سے دلچسپی لی گئی ہے جو حرکی ہے اور تجربے میں آ رہی ہے۔ کوئی مابعدالطبیعیاتی تصور اس ناول میں دکھائی نہیں دیتا۔ تمام کردار اسی دنیا میں بستے ہیں اور انہی مسائل سے دو چار ہیں جس سے انسان کو دو چار ہونا چاہیے۔
’’آنگن‘‘ پڑھ کر یہ عمرانیاتی نکات سامنے آتے ہیں:
۱: یہ ناول بنیادی طور پر عمرانیاتی تصادم کی کہانی ہے۔
۲: یہ ناول روایت کے بزرگوں سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔
۳: معاشرتی تبدیلی، معاشرتی رفتار میں رخنے ڈالتی ہے۔
۴: فرد قربانیاں دینے کے بعد جب نئے معاشرے کو تشکیل دیتا ہے تو وہ اپنے آدرش بھلا دیتا ہے اور بعض دفعہ تنہائی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔
۵: یہ ناول ’’معاشرتی نظامِ اشاریت‘‘ کا عمرانیاتی تصوّر پیش کرتا ہے۔
۶: فرد نظریاتی تصادم سے عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے۔
۷: مشترکہ خاندانوں میں سربراہ کی موت کنبے میں انتشار کا سبب ہوتی ہے۔
۸: ’’آنگن‘‘ برصغیر کی تاریخ کے ایک حصے کا عمرانیاتی تجزیہ ہے۔
۹: افراد معاشرے میں تضادات کی دنیا میں رہتے ہیں۔
۱۰: نظریات کے تفاوت سے انسانی تعلقات میں فرق آتا ہے۔
۱: افراد کا احترام اقدار کے تحفظ سے عبارت ہے۔
۱۲: ناول میں گروہی شناخت مذہب سے ہوتے ہوئے بھی دراصل نظریات اور رویوں سے ہوتی ہے۔
یہ کالم فیس بُک کی اسپیجسے لیا گیا ہے۔