خیبر پختونخواہ کے نام پر پاکستانی بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ کچھ نے سرخ ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ ایک بھی پاکستانی خوش ہو تو دیکھنے والے کے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور یہاں تو بہت سے پاکستانی مسرت سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔ کیا ہی مبارک موقع ہے اور کیا ہی دلکش منظر ہے۔ دل کی گہرائیوں سے دعا اٹھتی ہے کہ پاکستان کا ہر فرد خوش ہو،مطمئن ہو اور آسودہ حال ہو اور بقول احمد ندیم قاسمی، کسی پاکستانی کیلئے بھی …ع
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
خوشی کی مزید خبریں تلاش کرنے کیلئے میں صبح صبح اخبار دیکھتا ہوں، ناگاہ دل ڈوب سا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ایک دھڑکن درمیان سے غائب ہوگئی ہے۔ شاید چکر آیا ہے۔ اخبارات کا پلندہ پورچ میں کھڑی گاڑی کے بونٹ پر رکھ دیتا ہوں اور حواس مجتمع کرنے کیلئے زمین پر بیٹھ جاتا ہوں۔ جو خبر میں نے پڑھی ہے، آپ بھی پڑھیے۔
ایبٹ آباد صوبے کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے کیخلاف اور صوبہ ہزارہ کے حق میں ایبٹ آباد میں مظاہرے تیسرے روز بھی جاری رہے۔ فوارہ چوک پر مظاہرین نے ٹائر جلا کر شاہراہ ریشم بند رکھی اور دھرنا دیا۔ اس موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم خیبر پختونخواہ کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صوبے میں خون خرابہ ہونے سے قبل ہی صوبہ ہزارہ کا اعلان کر دے۔ ہزارہ کے عوام اپنے حق کیلئے کھڑے ہو چکے ہیں اور اب اس تحریک کا خاتمہ صوبہ ہزارہ کے قیام کے بعد ہی ہوگا۔ دریں اثناء مسلم لیگ ن ہزارہ ڈویژن کے ممبران اسمبلی نے بھی صوبہ ہزارہ کی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کی قرارداد پیش کرینگے اور ضرورت پڑی تو انیسویں ترمیم بھی اسمبلی میں پیش کرینگے‘‘۔
میں سوچنے لگا کہ عقل مند وہ ہوتا ہے جو دوستوں میں اضافہ کرے۔ اپنے گھر کو تنگ کرنے کے بجائے کشادہ کرے اور اپنے ہم نواؤں کی تعداد بڑھائے۔ اے این پی کے رہنما یہ تو کہہ رہے ہیں کہ وہ نئے نام کے حوالے سے صرف ایک شخص (صدر زرداری) کے احسان مند ہیں لیکن غالباً وہ زیادہ دور تک دیکھنے سے قاصر ہیں۔ امام غزالی نے کہا تھا کہ انسانی آنکھ میں ایک بہت بڑا نقص ہے اور وہ یہ کہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی لیکن ان آنکھوں کا کیا کیا جائے جو چند گز کے فاصلے پر بھی کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔ مجھ سمیت کوئی پاکستانی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستانی خوش نہ ہوں۔ لیکن عقل مند خوشی اس کو کہتے ہیں جس میں سب شریک ہوں اور جو کسی حادثے کا پیش خیمہ نہ ہو۔ صوبے کے نئے نام سے ایسا بیج بو دیا گیا ہے جس سے اگنے والے پودے پر کانٹے ہی کانٹے ہونگے۔ سرحد میں چترال کے لوگ بھی ہیں اور ہزارہ کے بھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان بھی سرحد میں شامل ہے اور کوہستان بھی، دیر بھی اور سوات بھی۔ یہاں گوجری بولنے والے بھی ہیں اور ہندکو اور سرائیکی بولنے والے بھی۔ کاش ایسا نام رکھا جاتا کہ آج ایبٹ آباد، مانسہرہ، شنکیاری، ہری پور، چترال، دیر، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، غرض صوبے کے ہر شہر میں جشن منایا جاتا لیکن جہاں وزیراعلیٰ سے لیکر اے این پی کراچی کے صدر تک سارے عہدے رشتہ داروں میں بانٹے جائیں وہاں اتنی دور اندیشی کہاں سے آئیگی جو دوستوں کی تعداد میں اضافہ کرے اور صوبے کی مختلف اکائیوں کو ایک وحدت میں پرو دے‘ یہاں تو یہ ہو رہا ہے کہ جو یکجہتی میسر تھی، اسے بھی انتشار کی نذر کیا جاتا ہے۔ جو شیر سو رہے تھے انہیں بھی جگا دیا گیا ہے۔ چنگاری سے کھیلا جائے تو شعلہ بھڑک اٹھتا ہے اور اگر کھیلنے والا یہی کہتا رہے کہ کون سا شعلہ ؟ کیسا شعلہ؟ تو اسکا جسم ایک دن بھانبڑ کی نذر ہو جاتا ہے۔
انسان جہاں بھی ہوں، کسی ایک مخصوص گروہ کی سرداری کبھی نہیں تسلیم کرتے۔ یہ حقیقت اندھوں کو بھی تاریخ کے بورڈ پر جلی حروف میں لکھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ بنو امیہ کی حکومت عرب عصبیت پر قائم تھی اور غیر عرب مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نہیں لگائے جاتے تھے۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ امویوں کی لاشوں پر دستر خوان بچھائے گئے اور کسی آنکھ سے آنسو نہ نکلا۔ پھر برامکہ چھا گئے۔ ان کا انجام پتھروں کو بھی پگھلا دینے والا ہے۔ مشرف کے عہد میں ایک برسر اقتدار پارٹی نے جاٹوں کو نوازا اور خوب نوازا لیکن پنجاب صرف جاٹوں کا تو نہیں تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں پرخچے اڑ گئے اور اب تک سہارے کیلئے تنکا تک نہیں ملا۔ ایک سابق وزیراعظم کے دور میں ایف آئی اے میں تیس افراد کو ملازمت دی گئی جن میں اٹھائیس ایک مخصوص برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ اس زمانے کے اخبارات گواہ ہیں کہ چالیس (یا اس سے کچھ زیادہ) کی تعداد میں بیورو کریسی کے ارکان مرکز میں فیصلہ کن اسامیوں پر تعینات تھے اور سب کا تعلق ایک ہی شہر سے تھا۔ جرنیل نے حکومت پر قبضہ کیا تو آنکھوں سے آنسو تو کیا نکلتے، مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ ایک مخصوص گروہ کی برتری تسلیم کر لینا انسان کے خمیر میں ہی نہیں۔ آخر گوجری ہندکو یا سرائیکی بولنے والا اپنے آپ کو پختون یا اپنے علاقے کو پختون خواہ کیوں کہے؟ آج اگر کوئی کوتاہ اندیش پنجاب کا نام جاٹستان یا اعوانستان رکھے تو صوبے کا جو حشر ہوگا، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔
رہی یہ دلیل کہ پنجاب اور سندھ کے نام بھی تو صوبوں کے حوالے سے ہیں تو حضور! پنجابی اور سندھی کوئی نسل نہیں۔ پنجاب میں جو بھی آیا پنجابی ہوگیا۔ ککے زئی پٹھان تھے یا اردو بولنے والے چغتائی، آج سب پنجابی ہیں۔ اسی طرح سندھ میں جن کے نام کے ساتھ آج تک پٹھان لکھا جاتا ہے، وہ بھی سندھی تسلیم کئے جاتے ہیں لیکن پختون تو ایک نسل ہے اور غیر پختون کبھی پختون نہیں ہو سکتا نہ پختون اسے پختون ماننے کے لئے تیار ہیں۔ اے این پی کراچی کے صدر جناب شاہی سید دو دن پہلے ٹی وی پر خود فرما رہے تھے کہ میں سید ہوں، پختون نہیں ہوں، ہاں پختونوں نے مجھے اپنی نمائندگی پر مامور کیا ہے۔ اس لئے انکی بات کر رہا ہوں۔ اسکے برعکس پنجاب اور سندھ میں بسنے والے سارے سید پنجابی ہیں یا سندھی۔ آپ نے اپنے صوبے کا کوئی ایسا نام رکھا ہوتا جو سب کو اپنے حصار میں لے لیتا اور کوہستان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان کے جنوب تک سب کو وہ نام بطیب خاطر، برضاو رغبت منظور ہوتا! اور جشن آج ایبٹ آباد اور ڈیرہ میں بھی منائے جا رہے ہوتے۔
یوں بھی پاکستانی نام رکھنے کے حوالے سے کبھی بھی عقل مند نہیں رہے۔ آپ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے نام دیکھے، ایک ایک لفظ پر مشتمل ہیں۔ آکسفورڈ کیمبرج، ہارورڈ، ازہر، برکلے لیکن یہاں کے ناموں پر غور کیجئے اور ہنسی سے دہرے ہو جائیے بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ، گورنمنٹ مولانا ظفر علی خان کالج، حالانکہ یہ نام زکریا یونیورسٹی اقبال یونیورسٹی، بھٹو انسٹی ٹیوٹ اور ظفر علی خان کالج بھی ہو سکتے تھے۔ خیبر پختونخواہ بھی ایسا ہی نام ہے اور کثرت استعمال سے یا صرف خیبر رہ جائے گا یا پختونخواہ ، اس سے یاد آیا کہ دو بچے کلاس میں شور کر رہے تھے کہ ماسٹر صاحب آ گئے۔ انہوں نے دونوں کو سزا سنائی کہ اپنا اپنا نام سو بار لکھیں۔ ایک لکھنے لگ گیا، دوسرا رونے لگ گیا، پوچھا گیا تو کہنے لگا کہ اس کا نام تو صرف ناصر ہے جب کہ میرا نام قاسم طیب مرزا ابو الحسن علی شاہ جہان نصر الکریم سمر قندی ہے۔