اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے فوراً بے ساختہ ٹپک پڑتا ہے وہ اس شعر سے زیادہ لطیف اور بامزہ ہوتا ہے۔ جو بہتدیر میں غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسرے کا آورد۔ بعضے اس موقع پر یہ مثال دیتے ہیں کہ جو شیرہ انگور سے خود بخود ٹپکتا ہے وہ اس شیرہ سے زیادہ لطیف و بامزہ ہوتا ہے جو انگور سے نچوڑ کر نکالا جائے۔ مگر ہم اس رائے کو تسلیم نہیں کرتے۔ اول تو یہ مثال جو اس موقع پر دی جاتی ہے اسی سے اس رائے کے خلاف ثابت ہوتا ہے جو شیرہ انگور سے خود بخود اس کے پک جانے کے بعد ٹپکتا ہے وہ یقیناً اس شیرہ کی نسبت بہت دیر میں تیار ہوتا ہے جو کچے یا اَدھ کچرے انگور سے نچوڑ کر نکالا جاتا ہے۔ مستثنٰی حالتوں کے سوا ہمیشہ وہی شعر زیادہ مقبول، زیادہ لطیف، زیادہ بامزہ زیادہ سنجیدہ اور زیادہ موثر ہوتا ہے جو کمال غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر کسی موقع پر پاکیزہ خیالات جو اس کے حافظہ میں پہلے سے ترتیب وار محفوظ ہوں مناسب الفاظ میں جو حسنِ اتفاق سے فی الفور اس کے ذہن میں آجائیں ادا کر دے۔ لیکن اول تو ایسے اتفاقات شاذ و نادر ظہور میں آتے ہیں۔ والنادر کالمعدوم۔ دوسرے ان خیالات کو جو مدت سے انگور کے شیرہ کی طرح اس کے ذہن میں پک رہے تھے، کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ وہ جھٹ پٹ بغیر غور و فکر کے سر انجام ہو گئے ہیں۔ شعر میں دو چیزیں ہوتی ہیں، ایک خیال، دوسرے الفاظ۔ خیال تو ممکن ہے کہ شاعر کے ذہن میں فوراً ترتیب پاجائے مگر اس کے لئے الفاظِ مناسب کا لباس تیار کرنے میں ضرور دیر لگے گی، یہ ممکن ہے کہ ایک مستری مکان کا نہایت عمدہ اور نرالا نقشہ ذہن میں تجویز کر لے۔ مگر یہ ممکن نہیں کہ اس نقشہ پر مکان بھی ایک چشم زدن میں تیار ہو۔
وزن اور قافیہ کی اوگھٹ تھاٹی سے صحیح سلامت نکل جانا اور مناسب الفاظ کے تفحص سے عہدہ برآہ ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر ایک دن کا کام ایک گھنٹے میں کیا جائے گا تو وہ کام نہ ہو گا، بیگار ہو گی۔
روما کے مشہور شاعر ورجل کے حال میں لکھا ہے کہ صبح کو اپنے اشعار لکھواتا تھا اور دن بھر ان پر غور کرتا تھا اور ان کو چھانٹتا تھا اور یہ کہا کرتا تھا کہ “ریچھنی بھی اسی طرح اپنے بدصورت بچوں کو چاٹ چاٹ کر خوبصورت بناتی ہے۔”
ایرسٹو شاعر جس کے کلام میں مشہور ہے کہ کمال بے ساختگی اور آمد معلوم ہوتی ہے اس کے مسودے اب تک فریرا علاقہ اٹلی میں محفوظ ہیں۔ ان مسودوں کے دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جو اشعار اس کے نہایت صاف اور ساعے معلوم ہوتے ہیں وہ آٹھ آٹھ کاٹ چھانٹ کرنے کے بعد لکھے گئے ہیں۔
ملٹن بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ نہایت سخت محنت اور جانفشانی سے نظم لکھی جاتی ہے اور نظم کی ایک ایک بیت مین اس کے سڈول ہونے سے پہلے کتنی ہی تبدیلیاں پے در پے کرنی پڑتی ہیں۔
ایک فارسی گو شاعر بھی فکر شعر کی حالت اس طرح بیان کرتا ہے؛
برائے پاکی لفظے شہے بروز آرد
کہ مرغ و ماہی باشند خفتہ، او بیدار
سچ یہ ہے کہ کوئی نظم جس نے کہ استقلال کے ساتھ جمہور کے دل پر اثر کیا ہو۔ خواہ طویل ہو خواہ مختصر، ایسی نہیں ہے جو بے تکلف لکھ کر پھینک دی گئی ہو۔ جس قدر کسی نظم میں زیادہ بے ساختگی اور آمد معلوم ہو اسی قدر جاننا چاہیے کہ اس پر زیادہ محنت زیادہ غور اور زیادہ حک و اصلاح کی گئی ہو گی۔
ابن رشیق اپنی کتاب ’عمدہ‘ میں لکھتے ہیں کہ “جب شعر سرانجام ہو جائے تو اس پر بار بار نظر ڈالنی چاہیے اور جہاں تک ہو سکے اس میں خوب تنقیح و تہذیب کرنی چاہیے۔ پھر بھی اگر شعر میں جودت اور خوبی نہ پیدا ہو تو اس کے دور کرنے میں پس و پیش نہ کرنا چاہیے جیسا کہ اکثر شعرا کیا کرتے ہیں۔ انسان اپنے کلام پر اس لئے کہ وہ اس کی مجازی اولاد ہوتی ہے مفتون اور فریفتہ ہوتا ہے۔ پس اگر اس کے دور کرنے میں مضائقہ کیا جائے گا تو ایک بُرے شعر کے سبب سارا کلام درجہ بلاغت سے گر جائے گا۔”
مقدمہ شعر و شاعری ۔ حالی ۔۔۔ سے اقتباس۔