ہسپانوی قیاسی افسانچہ
Speculative Flash Fiction
عام سی بات ( Typical )
راقیل کاسترو ( Raquel Castro)
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
عام سی بات ہے : آپ کی آنکھ ہسپتال میں کھلتی ہے ۔ آپ ہزاروں مشینوں سے جُڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کو یہ یاد نہیں کہ آپ وہاں کیسے پہنچے ۔ دن میں آٹھ گھنٹے ٹی وی دیکھنے کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے آپ کو ’ عقل‘ عطا کی ، اور آپ یہ تصور کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہو گا ۔ آپ گھنٹی ڈھونڈتے ہیں تاکہ نرس کو بلا سکیں ، جو ( آپ تصور کرتے ہیں ؛ یہ عمومی بات ہے ) جوان ، خوبصورت اور خوش مزاج ہو گی ۔ وہ آپ کو دیکھ کر رو پڑے گی ( وہ ’ انتہائی نگہداشت ‘ میں گزری رات کے دوران آپ کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہو گی ) اور آپ کو اس حادثے کے بارے میں بتائے گی جو آپ کو یاد نہیں ؛ ایک ننھی لڑکی جسے آپ نے ایک دہشت گرد حملے میں بچایا یا پھر صدر کو ، جس سے، ایک گنگناتا ہوا خودکُش حملہ آور ،ٹکرانا چاہتا تھا ، کیونکہ آپ نے عین وقت پر اس کو وہاں سے کھینچ لیا تھا ۔
لیکن ( عام سی بات ہے ) نرس نہیں آتی ۔ اور جب آپ انتظار کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہاں تو گہری خاموشی ہے ۔ آپ اپنے ساتھ جُڑی تاروں کو خود سے الگ کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اٹھتے ہیں ۔
آپ کمرے سے باہر نکلتے ہیں اور سنسان راہداریوں میں چلنے لگتے ہیں ، پھر آپ کو ایک نعش نظر آتی ہے، ایک اور ، اور پھر ایک اور ، سب کی کھوپڑیاں تباہ حال ہیں ، تب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ واقعتاً کچھ ’ گڑبڑ‘ ہے ۔ عام سی بات ہے ۔
آپ ، تب ، پتلون اور جوتے تلاش کرتے ہیں تاکہ انہیں پہن کر، وہاں سے نکل کر، سڑک پر جا سکیں ، ( عام سی بات ہے ) ، سڑک جو زندہ درگور لوگوں سے بھری پڑی ہے ، جو اکڑے ہوئے ، سست روی سے کٹھور دل کے ساتھ وہاں موجود ہیں ۔ ان کی نظریں آپ پر جمی ہیں لیکن وہ آپ کو روندتے ہوئے چلتے رہتے ہیں ۔
آپ کو خوف محسوس ہوتا ہے ۔ اور ہونا بھی چاہیے: کیونکہ وہاں نعشیں ہیں جن کے چہرے مسخ ہیں، ان کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں گوشت سے ابلی پڑی ہیں اور ان کی انتڑیوں پر گرد جمی ہے ۔ آپ اپنے خوف پر قابو پاتے ہیں اور وہاں سے بھاگ جانے کا قصد کرتے ہیں ، آپ کا خیال ہے کہ آپ انہیں پیچھے چھوڑ سکتے ہیں ۔ مشکل مرحلہ ابھی نہیں آتا ۔ یہ تب آتا ہے جب ( عام سی بات ہے) آپ کو ایک اکیلی ننھی لڑکی زندہ ملتی ہے ، جسے محبت اور کسی کا ساتھ درکار ہے ۔
اور آپ دوڑتے ہیں ۔
اور وہ آپ کا پیچھا کرتے ہیں ۔
اور وہ آپ تک پہنچ جاتے ہیں ۔
اور ۔ ۔ ۔ اور جب وہ آپ کے جسم کی کاٹ پیٹ کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کو تکلیف کا احساس ہوتا ہے لیکن آپ کا غصہ ، آپ کی اداسی اور سب سے بڑھ کر آپ کی مایوسی زیادہ طاقت سے درد کے احساس پر حاوی ہے ۔
عام سی بات ہے کہ تب آپ کو یہ قوی احساس ہوتا ہے کہ ’ زومبی‘ کی کہانیوں میں ہزاروں ’ ایکسٹرا ‘ ہوتے ہیں اور یہ کہ آپ ان میں سے ہی ’ ایک ‘ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زومبی = Zombie ، یہ ایک ایسا فِکشنل کردار ہے جو انسانی نعشوں کو نئی ترتیب دے کر زندہ کیا جاتا ہے ۔ یہ کردار پہلی بار برطانوی شاعر رابرٹ ساﺅتھے نے 1819 ء میں اپنی شاعری میں استعمال کیا تھا ۔ ویسے یہ لفظ مغربی افریقہ سے جُڑتا ہے ۔ ادب کی ’ خوفناک ‘ اور ’ تخیلاتی‘ فکشن میں ’ زومبی‘ ایک اہم کردار ہے جو ادب کے علاوہ فنون لطیفہ کی دوسرے میدانوں ، خصوصاً فلم میں بارہا استعمال کیا جاتا ہے ۔
راقیل کاسترو میکسیکو کی ادیبہ ہے ۔ وہ بچوں سمیت سب کے لئے لکھتی ہے ۔ اس کے ناول ’ سائے بھری آنکھیں ‘ ( Ojos Llenos de Sombras) نے 2012 ء میں ’ Premio Aguilar ‘ ایوارڈ جیتا ۔ وہ میکسیکن زومبی کہانیوں کے ایک مجموعے ’ Festín de Muertos ‘ کو رافیل ولیگس کے ساتھ مرتب کر چکی ہے ۔ وہ میکسیکو شہر میں رہتی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔