پاکستان میں اوسطاً سالانہ پندرہ لاکھ ٹن آم پیدا ہوتے ہیں ۔ ان میں سے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ٹن آم برآمد کیے جاتے ۔ باقی ہم وطن عزیز میں استعمال کرتے ہیں ۔ آم میں ،اس کی قسم کے مطابق، بحساب وزن بیس سے چالیس فیصد تک گٹھلی ہوتی ہے۔ اگر اوسطاً پچیس فیصد بھی گٹھلی ہو تو تیرہ لاکھ ٹن آموں سے تین لاکھ ٹن سے زائد گٹھلیاں نکلتی ہیں جنہیں ہم کچرے میں پھینک دیتے ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ارد گرد ہر شے پر غور کرنا چاہیے، تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے اپنے ارد گرد چھوٹی سے چھوٹی شے پر اس کی ساخت پر ، اس کے اجزاء ترکیبی پر ، اس کے ممکنہ استعمال اور بنی نوع کے لیے اس کی افادیت پرغور و تحقیق کرنا چاہیے۔
اب دیکھیں ہم دہائیوں سے آم کھا رہے ہیں اور گٹھلیاں کچرے میں پھینک رہے ہیں۔ آج تک ہمارے کسی دانا، کسی حکیم یا کسی خوراک سے متعلقہ سائنسدان یا پروفیسر نے اس پر سوال نہیں اٹھایا کہ اس گٹھلی یا اس کے اندر موجود گری کی کیا کمپوزیشن ہے یا اس سے انسانوں کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ اور آخر کار ہمیں ہمارے آم سے نکلنے والی گٹھلی میں موجود گری کی کیمیائی ساخت اور افادیت و اہمیت کی بابت بھی گوروں نے ہی آگاہ کیا۔
آم کی گٹھلی سے نکلنے والی گری میں دس سے بارہ فیصد ایک طرح کا مکھن ہوتا ہی جس کی کیمیائی ساخت کوکا بٹر کے قریب ہے۔ کوکا بٹر کوکا پھلیوں سے نکلنے والے اس مکھن کو کہتے ہیں جسے بہترین چاکلیٹ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوکا مکھن کی تھوک میں عالمی منڈی میں قیمت پاکستانی روپوں میں گیارہ سو روپ فی کلو گرام ہے۔جب کہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ آم کی گٹھلی سے نکلنے والے مکھن کی خوشبو کوکا بٹر سے بھی بہتر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ آم کی گٹھلی سے نکلنے والے مکھن میں موجود مختلف اقسام کے تیل اور مائکرونیوٹرینٹس انسانی جلد اور بالوں کے لیے انتہائی مفید ہیں۔ اس مکھن میں سے عمل تخلیص کے ذریعے ایک تیل بھی نکالا جاتا ہے۔ یہ تیل کھانوں اور ادویات میں استعمال ہوتا ہے۔ اسے مینگو سیڈ آئل کہتے ہیں۔ اس کی قیمت قریب پانچ ہزار روپے پاکستانی فی کلو گرام ہوتی یے۔ جبکہ تیل کے بعد بچ رہا پھوک بہترین گلوٹن فری آٹا ہے۔ جسےہم گندم کے آٹے مکس کرکے بھی کھا سکتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے انسانی خوراک میں نہ بھی شامل کرنا چاہیں تو مرغیوں یا گائے بھینسوں کی خوراک میں مکئی کے بہترین نعم البدل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اندازہ لگائیں کہ اگر تیرہ لاکھ ٹن آم سالانہ جو ہم کھاتے ہیں اس کی گٹھلیاں ہم گھروں کی چھت ہر اکٹھا کرتے جائیں اور کسی گٹھلیاں جمع کرنے والے دے دیں تو سالانہ سوا تین لاکھ ٹن گٹھلی جمع ہوسکتی ہے۔ گٹھلی میں گری کی مقدار اوسطاً آدھی ہوتی ہے۔ اس حساب سے ہم سالانہ ڈیڑھ لاکھ ٹن سے زائد گری جمع کرسکتے ہیں۔ اس ڈیڑھ لاکھ ٹن گری سے بحساب دس فیصد پندرہ ہزار ٹن آم کی گری کا مکھن حاصل ہوگا۔
اس مکھن کی کم سے کم قیمت (ایمزون پر 200 گرام کا پیک 20 ڈالر کا فروخت ہورہا ہے۔)۔ کوکا بٹر سے آدھی بھی لگائیں تو یہ قریب آٹھ ارب روپے بنتے ہیں۔ جبکہ تیل نکالنے کے بعد کا آٹا بحساب تیس روپے بھی لگائیں تو چار ارب کا ہوگا۔ اسی طرح صرف ایک بیکار ترین نظر آنے والی شے سے ہم سالانہ بارہ ارب روپے کے وسائل مہیا کرسکتے ہیں۔ اور بارہ ارب روپے کا مطلب ہے چالیس ہزار خاندانوں کی سال بھر پچیس ہزار ماہانہ آمدن۔
یہاں یہ بتانا بھی دلچسپی سے خالینہ ہوگا کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر ام کی گٹھلی سے تیل نکالنے کا کام ہورہا ہے اور وہ اسے دنیا بھر میں برآمد بھی کررہا ہے۔ حال ہی میں ان کی سرکار نے تیس ہزار ٹن سالانہ مکھن حاصل کرنے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے جو ان کی کل ممکنہ پیداوار کا تیس فیصد ہے۔
آم کی گٹھلی کی گری سے مکھن نکالنے کے لیے ہائیڈرالک پریس کی تکنیک سب سے کارآمد ہوتی ہے۔ ہائیڈرالک پریس سے مکھن نکالنے سے پہلے گری کو خشک کیا جانا چاہیے۔ ایک چھوٹا سا سولر ڈی ہائیڈریٹر اور کم استطاعت کا ایک ہائیڈرالک آئل ایکسٹریکٹر زیادہ سے زیادہ پانچ سے چھ لاکھ میں بن جائے گا۔ اس طرح کے ایک سیٹ سے تیس سے ساٹھ کلو روزانہ مکھن حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مطلب ایک ماہ کی پیداوار کی مالیت اس سارے سسٹم کی مالیت سے زیادہ ہوگی۔
پھر کہتا ہوں قدرت نے فیاضی میں کمی نہیں کی۔ ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ اگر ہم خدا کی تفویض کردہ نعمتوں کا درست استعمال شروع کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم خوشحال نہ ہوجائیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...