آم کی درخواست… تھانیدار کے نام
تھانیدار صاحب! پھلوں کا بادشاہ آپ کو سلام کہتا ہے۔ میں کبھی آم تھا لیکن تین دنوں میں 'عام‘ ہوکر رہ گیا ہوں۔ میرے ساتھی پھل بھی غمگین ہیں‘ سیب کی حالت ایسی ہوگئی ہے کہ اب وہ سیب نہیں 'آسیب‘ لگتا ہے۔ کیلے کے 'واویلے‘ نہیں سنے جاتے۔ ہر پھل پڑا پڑا بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔ ابھی کل مجھے امردو بھائی بتا رہے تھے کہ سوشل میڈیا کی ناقدری کے باعث آڑو کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ جناب والا! لڑائی عوام اور پھل فرشوں کی ہے‘ ہمیں کیوں ذلیل کیا جا رہا ہے؟ یقین کریں پہلے جس پھلوں کی دکان پہ لوگ کھچاکھچ بھرے ہوتے تھے اب وہاں صرف 'کھچ‘ رہ گئی ہے۔ غریب لوگ ہمارے پا س سے گزرتے ہیں اور جگتیں مارتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ کل ایک مزدور مجھے دیکھ کر کہہ رہا تھا 'اوئے امب! تینوں وجے بمب‘…!!!
تھانیدار صاحب! میں عوام کے خلاف آپ کے حضور درخواست دینا چا ہتا ہوں‘ ویسے تو میرا فرض بنتا تھا کہ میں تھانے آکر خود آپ کو یہ درخواست پیش کرتا لیکن چونکہ میں 'لنگڑا‘ ہوں اس لیے آنے سے معذور ہوں‘ امید ہے آپ ایک معذور پھل کی مجبوری کا احساس کریں گے۔ میرا مطالبہ ہے کہ بلاوجہ کی ہڑتال پر آپ سارے سوشل میڈیا کو فوری طور پر گرفتار کرکے حوالات میں ڈالیں‘ جگہ کم ہو تو کچھ لوگوں کو 'کراچی کی بجلی کمپنی‘ کے حوالے کر دیں‘ آج کل وہ بھی حوالات جیسا ماحول فراہم کرنے میں بے مثال ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ سڑکوں پر گشت بڑھائیں اور جس کسی کو بغیر پھل کے آتے جاتے دیکھیں اس پر پھلوں کے جذبات قتل کرنے پر کم از کم 302 کا پرچہ ضرور کاٹیں۔ تمام پھل آپ کو دعائیں دیں گے۔ پھل نہ خریدنے کی وجہ سے حالت یہ ہو گئی ہے کہ دہی بڑوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں‘ سبزیاں مہنگی ہو گئی ہیں۔ ظاہری بات ہے پھل خریدنے والے سارے گاہک جب سبزیوں کا رخ کریں گے تو سبزی والوں کی موجیں ہو جائیںگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی چیز کیوں مہنگی ہوتی ہے؟ اس کا جواب بھی لے لیجئے‘ مثال پھلوں کی ہی دوں گا۔ پھل اس لیے مہنگے ہوئے کہ رمضان بازاروں سے لے کر مارکیٹوں تک لوگوں نے ضرورت سے زیادہ خریدنا شروع کر دیے۔ آپ گھروں میں جا کر دیکھ لیجئے‘ کیلے‘ سیب‘ آم‘ کئی دفعہ اتنی زیادہ مقدار میں پڑے رہ جاتے ہیں کہ خراب ہو جاتے ہیں اور پھینکنے کی بجائے ماسی کو دے دیے جاتے ہیں۔ اگر ہم لوگ ضرورت کے مطابق پھل خریدیں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مہنگائی ہو۔ دکانداروں کے علاوہ عوام کی کثیر تعداد بھی ذخیرہ اندوز واقع ہوئی ہے۔ عوامی ہڑتال کے نتیجے میں پھلوں کی قیمتیں تو کم ہو گئی ہیں لیکن آپ دیکھئے گا‘ جونہی پھل سستا ہو گا‘ یہی عوام ضرورت سے زیادہ خریدے گی اور ایک ہفتے بعد پھر وہی ریٹ ہو جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے حکومت رمضان بازاروں میں چینی سستی کرتی ہے تو جس کو اپنے گھر کے لیے پانچ کلو چینی درکار ہوتی ہے وہ ایک ہی دفعہ بیس کلو خرید لیتا ہے۔ تین دن پھلوں کے ناغے نے عوام کی یکجہتی تو ثابت کر دی لیکن کاش یہ عوام کبھی اس طرح ملک دشمن عناصر اور ملاوٹ مافیا کے خلاف بھی اکٹھا ہو جائے۔ دودھ میں پانی کون نہیں ملاتا‘ وہاں عوام کیوں نہیں دودھ والوں کا بائیکاٹ کرتی؟ مہنگی ادویات خریدنا کیوں نہیں بند کرتی؟ یقین کیجئے تین دن کی ہڑتال سے صرف پھلوں کی قسمت خراب ہوئی ہے‘ آڑھتیوں کی نہیں۔ ان کے پاس کولڈ سٹوریج ہیں‘ وہاں وہ تین دن تو کیا تین ہفتوں کے لیے بھی پھل محفوظ کر سکتے ہیں۔ ریڑھی والا یہ سب نہیں کر سکتا لہٰذا دیہاڑی صرف ریڑھی والے کی ماری گئی ہے۔ ہم سب پھلوں کو خوشی ہے کہ عوامی شعور بیدار ہوا ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ شعور سوتا بھی بڑی جلدی ہے۔
آپ نے کبھی رمضان کے علاوہ یوں گلی گلی پکوڑے سموسے بکتے نہیں دیکھے ہوں گے‘ وجہ صرف یہ ہے کہ رمضان میں ہر شخص پکوڑوں سموسوں کا شیدائی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فروٹ چاٹ بھی افطاری کا لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ اگر لوگ دیوانہ وار ہمیں خریدنے کی کوشش کریں گے تو لامحالہ قیمت بھی بڑھے گی۔ اب تین دنوں سے یہ حال ہے کہ سارے پھل مل کر گا رہے ہیں 'انتہا ہو گئی انتظار کی‘… لیکن کوئی ہماری طرف نہیں آتا۔ ایک بندہ تو ڈر ڈر کے دوسرے سے پوچھ رہا تھا کہ 'یار کھجور بھی پھل میں شمار ہوتی ہے؟‘۔ میں آپ سے ایک بار پھر ملتمس ہوں کہ پھلوں کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی فورس کے ساتھ میدان میں اتریں‘ آخر پھل بھی انسان ہیں!!!
تھانیدار صاحب! کاش آپ یہاں آکر فالسے کی حالت دیکھیں‘ بالکل مرجھا گیا ہے‘ پلپلا ہو گیا ہے… 'فالسے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا‘… انگوروں کو زنگ لگ چکا ہے‘ خوبانی آخری سانسیں لے رہی ہے‘ خربوزہ قومے میں چلا گیا ہے‘ آلو بخارہ شدید بخار میں مبتلا ہے… ایسے میں اگر کوئی پھل قلقاریاں مار رہا ہے تو وہ کم بخت تربوز ہے… آرام سے بیٹھا ہے اور کہتا ہے‘ مجھے بے شک دس دن نہ کھائو‘ میرا کیا بگڑنا ہے۔ میری دکان کا مالک کہتا تھا کہ ہڑتال سے کچھ نہیں ہو گا‘ اب یہ حالت ہے کہ تین دن پرانے پھل خود ہی کھاکھا کے ڈائریا کروا چکا ہے۔ میرے آس پاس جتنے بھی پھل پڑے ہیں وہ عالم نزع میں ہیں‘ ابھی تھوڑی دیر پہلے' انار‘ کو ایمرجنسی میں وارڈ میں داخل کرایا ہے‘ جہاں اس کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔ لوکاٹ نے تو اپنی وصیت بھی لکھوا دی ہے۔ تھانیدار صاحب! ہم پھلوں نے ہمیشہ انسان کو زندہ رہنے کی طاقت دی‘ بیماریوں کو شکست دی لیکن آج خود ہم مر رہے ہیں۔ ہمیں کھانے والے بھی انسان ہیں‘ مارنے والے بھی انسان… کیا
ایسا نہیں ہو سکتا کہ کم از کم رمضان میں حکومت آڑھتیوں سے ڈائریکٹ ڈیل کرکے فروٹ خود کنٹرول ریٹ پر بازاروں میں مہیا کرے؟ یہ ٹھیک ہے کہ تین دن پھل نہ کھانے سے عوام کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن ذرا دیکھئے کہ کس کس کا کاروبار تباہ ہوا‘ پھلوں کا جوس بیچنے والے رُل گئے‘ فروٹ چاٹ کی ریڑھیاں برباد ہو گئیں‘ چھابڑی پر فالسے بیچنے والا تین دن کی کمائی سے محروم ہو گیا‘ فروٹ سپلائی کرنے والے ٹرک بند ہو گئے‘ منڈی میں مزدور بے کار بیٹھا رہا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال صرف جذباتی اور عوامی علاقوں میں درپیش رہی… شہر کے پوش علاقوں میں لوگ بڑے بڑے شاپنگ مالز میں فریش فروٹ اسی طرح خریدتے رہے جیسے وہ عام دنوں میں خریدتے ہیں۔ اب ہوگا یہ کہ تین دن کی ہڑتال کے بعد مارکیٹ میں جو پھل آئے گا وہ آڑھتیوں کا سٹور کیا ہوا ہو گا‘ یہ فریش نہیں ہو گا لیکن اچھے دام پر نکل جائے گا۔ ایک بات اور لکھ لیں… تین دن بعد اب پھل پھر مہنگا ہو گا کیونکہ سب جانتے ہیں یہ ہڑتال دوبارہ کال ہو بھی گئی تو کوئی عمل نہیں کرے گا… ایک جھٹکا تھا جو ہمیں لگ چکا ہے‘ اب آپ براہ کرم ہم پھلوں کی درخواست پر فوری عمل کرتے ہوئے اُس بندے کا پتا چلائیں جس نے سب سے پہلے ہڑتال کا شوشا چھوڑا تھا۔ ایسے بندے کو تھانے لا کر صرف اتنا پوچھ لیں کہ کیا فیس بک کی ہڑتال بھی ممکن ہے؟ اگر ممکن ہو تو اُس سے یہ ہڑتال ضرور کروائیں… ہزاروں وہ والدین دعائیں دیں گے جن کے بچے فیس بک نے چھین لیے ہیں… فقط… فی الوقت گلے سڑے پھلوں کا بادشاہ…آم…!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“