جب بھی آموں کا موسم آتا ہے تو میں اپنے بچپن میں لوٹ جاتا ہوں ۔آم مجھے بہت مرغوب ہیں ۔اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ میں نے اپنا بچپن اور لڑکپن اپنے آموں کے باغ میں کھیلتے ہوۓ گزارا ہے ۔۔۔میرے دادا جان چوہدری محمد بخش کپور تھلوی ، میرے بزرگوں میرے تایاؤں کی زندگی کے خوبصورت دن انہیں آموں کے باغ میں گزرے ہیں۔۔۔۔۔۔ آم کا موسم ہو اور ایک ادیب ہونے کے ناطے سے غالب کا تذکرہ نہ ہو، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ نہ جانے آم اور غالب سے جڑے کتنے قصے مشہور ہیں۔ غالب کو آموں سے عشق تھا اور ہمیں ان کی شاعری اور آم، دونوں سے
مشرقی ثقافت آموں کی چاہت سے بھری پڑی ہے۔ گئے زمانے کی بات ہے کہ آم کا موسم کیا شروع ہوتا، ہمارے گھر کی چھت کٹی ہوئی کیریوں (کچے آموں) سے بھر جاتی تھی۔
ذہن کے گوشوں پر زور ڈالتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ میری تائی حمیداں اور والدہ صاحبہ ایک موٹی سی پٹی پر جڑے سروتے نما بڑے سے اوزار کی مدد سے کیری کو چار حصوں میں کاٹتیں اور جب ڈھیر ساری کیریاں کٹ جاتیں، تو انہیں گھر کی چھت پر پھیلی دھوپ میں سکھانے کے لیے ایک چارپائی پر چادر ڈال کر صبح سے شام تک کے لیے رکھ دیا جاتا۔
ہفتہ نہیں گزرتا تھا کہ چینی کی مٹی کے بنے سفید اور زرد رنگ کے مرتبانوں میں ان کا اچار ڈال کر رکھ دیا جاتا۔
کچے آم یا کیری کے اچار کی اقسام اور پکوانوں کے نام گنیں تو گنتی انگلی کے پوروں سے آگے نکل جاتی ہے۔
آم کا اچار آج بھی پورے سال کھایا جاتا ہے۔ اس اچار کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک اچار تیل میں اور دوسرا پانی سے تیار کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے سرکہ ڈال کر بھی تیار کرتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب کچے آم کا اچار کھیتوں میں کھلے آسمان تلے کام کرنے والے کاشت کاروں کے دوپہر کے کھانے کا لازمی حصہ ہوا کرتا تھا۔ وہ صرف اچار کے ساتھ روٹی کھا کر بھی مطمئن رہتے تھے۔
کچے آموں سے بنے اچار کی سب سے مشہور قسم مکس اچار ہے۔ یہ مکس اچار پہلے مرتبانوں میں ڈلا کرتا تھا۔ اب جب سے بنا بنایا اچار مارکیٹ میں ملنے لگا ہے، بات پلاسٹک کے ڈبوں، بوتلوں اور پیکٹوں تک جا پہنچی ہے۔
سہل پسندی نے گھر میں اچار ڈالنے کا رواج ختم کر دیا ہے۔ اب یہ سب کو جھنجھٹ لگتا ہے۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ گھر میں اپنے ہاتھ سے خود اچار تیار کرے۔ اس لیے وہ ذائقے بھی ناپید ہوگئے جو گزرے زمانوں میں اماں، نانی یا دادی کے ہاتھوں سے بنے اچار میں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے اپنے آموں کے ساڑھے چار ایکڑ باغ سے کچے اور پکے وافرمقدار میں آم آ جاتے تھے ۔آتے تو اب بھی ہیں لیکن بہت سارے درخت خشک ہو چکے ہیں ۔مشترکہ باغ ہونے کی وجہ سے اب اس کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آموں کا یہ باغ تباہی کی طرف گامزن ہے۔
میرے بچپن کی دھندلی دھندلی سی یادوں میں ہے کہ کیری جب آم میں بدل جاتی، تو ہماری دادی پودینہ ڈال کر اس کی میٹھی چٹنی بنالیتی تھیں۔ اس چٹنی میں یقیناً اور بھی بہت سے لوازمات ہوتے ہوں گے مگر وہ مجھے یاد نہیں۔ آم اور پودینے کی یہ چٹنی بنانے میں دادی کو ملکہ حاصل تھا۔
کیری کا اچار، سرکے میں ڈوبے پیاز کے گول گول چھلے اور بیسن کی روغنی روٹی، نمکین لسی کے ساتھ کھانے میں جو مزہ تھا، الفاظ وہ بیان نہیں کرسکتے۔
ہماری اماں، دادی کی تابع دار اور ہر حکم پر "آمنا و صدقنا” کہنے والوں میں سے پیش پیش رہتیں ۔ انہوں نے نہ صرف دادی سے خشک پودینے اور آم کی کھٹی میٹھی چٹنی بنانا سیکھی۔ بلکہ کیری کو لکڑیوں کی دھیمی دھیمی آنچ پر اس کا چھلکا جلنے کے باعث ‘داغ دار’ ہونے تک اسے بھوننے کا ہنر بھی سیکھا۔
ہلکی آنچ پر بھنی کیری کو شیشے کے گلاس میں نمک کے پانی میں ڈال کر بچوں سمیت گھر کے تمام مردوں اور عورتوں کو دے دیا جاتا۔ جو کیری کے گودے کو چمچے کی مدد سے ہلکے ہلکے ملتے۔ جب یہ گودا پانی کو گاڑھا کردیتا تو اسے شوق سے پیا جاتا۔
دادی کا نسخہ تھا یا کچھ اور کہ وہ اسے لو کا ‘تریاق’ کہا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر سے باہر کام کے لیے جانے والے تمام مردوں کو لو سے بچانے کے لیے یہ شربت کسی قیمتی شے سے کم نہیں۔ شاید یہ اسی کی طاقت تھی کہ صحن اور اس کے دریچوں میں پھیلی دوپہر کی سخت دھوپ بھی کبھی ناگوار نہیں گزری اور نہ ہی بچپن میں ہمیں کبھی لو لگی۔ اسی طرح میری نانی اماں امیر بیگم بہت محنتی اور عبادت گزار خاتون تھیں۔نام تو ان کا امیر بیگم تھا لیکن امیرت کے دن انہوں نے صرف جوانی میں ہی دیکھے تھے ۔ جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔پھر زندگی بھر کسمپرسی کے حالات سے دوچار رہیں ۔۔۔۔ دکھوں سے مقابلہ کرتے ہوئے چار بیٹیوں اور ایک اکلوتے بیٹے کی پرورش کی ۔وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باہمت انسان کی طرح وقت سے وہ سبق سیکھے جس نے کبھی ان کو ہمت نہ ہارنے دی ۔آم کا اچار ،مربع بنانے میں ان کو بھی بڑا ملکہ حاصل تھا۔۔آم کے اچار کو وہ برے وقتوں کا سہارا کہا کرتی تھی ۔گھر میں سالن نہ بھی ہو تو روٹی پر اچار کی ایک کنتر رکھ کر پیٹ بھرا جا سکتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پیٹ صرف اعلی قسم کے کھانوں سے ہی نہیں بھرا جاتا بلکہ تندور کی طرح اس کے اندر جو بھی آپ ایندھن ڈال دیں ، اس کا کام اپنا فعل ادا کرنا ہوتا ہے ۔۔۔
پھر جب ساون کی گھٹاؤں میں جھومتے گھنے درختوں سے ٹوٹ کر گرنے والے آم اپنے باغ سے وافر مقدار میں آتے، تو پھر رنگ برنگ کے فارمولے تیار کیے جاتے ہیں
میری بڑی تائی نذیراں بیگم ، تائی حمیدہ بیگم، خالہ عظمت بیگم ، خالہ عزیزاں بیگم ، تائی بشیراں اور مامی حاکم بی بی کو آموں سے اچار اور کیری کا مربہ بنانے میں ملکہ حاصل تھا ۔ اب اس دور میں جو خاتون شخصیت بزرگوں کی طرح ایسے فارمولوں کو استعمال کر رہی ہے۔ ان میں ہماری بڑی بہن حاجن انور شاہدہ کا نام سر فہرست ہے ۔نہ صرف وہ کچے اور پکے آموں کی مختلف ریسپیز بنانا جانتی ہیں بلکہ کچن سے وابستہ بہت سے کھانوں کو نت نئے ذائقوں سے متعارف بھی کرواتی رہتی ہیں ۔۔نہ صرف ان کا ذائقہ متعارف کرواتی ہیں بلکہ مختلف ریسپیز تیار کرکے اپنے عزیزوں ، بہنوں بھائیوں ، نندوں اور جھیٹھ کے گھروں میں بھی تحائف بھجواتی رہتی ہیں۔ آج کے دور میں ایسی فرشتہ صفت خاتون کا وجود کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ۔اس سلسلے میں ان کے خاوند رانا افتخار احمد بھی دل کے بڑے سخی ہیں۔دعوتیں کرنے اور تحائف بانٹنے میں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔۔۔ہر سال اپنے ذاتی باغ کے آموں کے علاوہ جو لوگ آموں کی سوغات کے لیے مجھے یاد رکھتے ہیں ان میں کیپٹن محمد اکرم ،رانا افتخار احمد اور سعودی عربیہ میں مقیم میرے بھائی محمد عامر گلزار کے نام شامل ہیں ۔عامر گلزار کے ایک دوست کا رحیم یار خان میں ذاتی آموں کا باغ ہے جو ہر سال دو آموں کی پیٹیاں بطور تحفہ عامر گلزار کے حوالے سے دے کر جاتے ہیں ۔۔ان سب احباب کے لیے میں سپاس گزار ہوں اللہ پاک ان کو جزائے خیر سے نوازے ۔۔۔۔
میرے بڑے تایا جان نور محمّد نور کپور تھلوی جو خوبصورت شاعر اور ادیب تھے وہ پکے آموں کے بڑے ہی رسیا اور شوقین تھے ۔اسی طرح میرے والد گرامی رانا محمد گلزارخان کپور تھلوی تو پکے آم کے ساتھ روٹی کھا لیا کرتے تھے ۔۔ہمارے گاؤں چک 87 گ ب بابے دی بیر میں پیر سید خیر شاہ کا سالانہ عرس مبارک ہوتا تو تایاجی نور محمّد نور کپور تھلوی اپنے ان دوستوں پیر سید خیر شاہ ، پیر صادق حسین شاہ اور ان کے بیٹے سید محمد اقبال شاہ کی تواضع اپنے آموں کے باغ سے پکے ہوۓ آموں سے کرتے۔ ان کی تواضع کرنے کے لئے انہوں نے اپنے بھتیجوں کو اس کام پر مامور کیا ہوتا تھا۔۔اس دور میں نہ پختہ سڑکیں تھیں نہ بجلی تھی۔۔۔زندگی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ رواں دواں تھی۔۔۔ شام کے اندھیرے سے پہلے ہی چارپائی کے پاس بڑا سا ٹب برف کے یخ پانی سے بھر کر رکھ دیا جاتا تھا جن میں درجنوں آم ڈال دیے جاتے تھے۔
آموں کو ٹھنڈا ہونے کے بعد تمام مہمانوں کو چارپائی کے گرد بیٹھا کر آم یخ پانی سے نکال کر انہیں پیش کیے جاتے۔ساتھ ساتھ تصوف اور دنیا کی باتیں بھی چلتی رہتیں ۔ تایا جی نور محمّد نور کپور تھلوی کہا کرتے تھے کہ آموں اور پکوڑوں سے ‘دل’ نہیں بھرتا۔
آم صدیوں سے برِصغیر والوں کی مرغوب غذا رہا ہے۔ تبھی تو اب تک اس کی پھلوں پر بادشاہت قائم ہے۔ آم کا اسکواش ہو یا شیک، جوس ہو یا اس سے بنی جدید زمانے کی سافٹ ڈرنکس، ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں اس کا رسیا ہے۔
زمانے نے کروٹ لی تو مینگو آئس کریم، مینگو فالودہ اور مینگو گولا گنڈا نکل آیا۔ جب آموں کا موسم نہیں بھی ہوتا تو آم فلیور اور ‘مینگو ایسنس’ آم کی یاد تازہ کراتا رہتا ہے۔
اب پھر آم کا موسم لوٹ آیا ہے اور ساتھ ہی پودینے والی میٹھی چٹنی کی یاد بھی۔۔۔۔۔۔اور مجھے شدت سے اپنے پیارے بزرگ بابا جی نور محمّد نور کپور تھلوی ، والدگرامی رانا محمد گلزار خان کپور تھلوی ، حکیم محمد افضل خان ، چوہدری خورشید احمد خان ، پیر سید خیر شاہ پیر سید صادق حسین شاہ ، سید محمد اقبال شاہ، رانا دلدار محمّد نمبردار ، رانا گلزار محمد نمبردار و دیگر بے شمار لوگ یاد آتے ہیں ۔۔ان میں میری تائیوں ، میری خالہ ، میری دادی ، میری نانی اور میری پھوپھی کا چہرہ بھی سامنے آ جاتا ہے ۔۔۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...