عام فہم، عقل اور توجہیات
انسان کی زندگی میں کچھ چیزیں رائج ہوتی ہیں اور کچھ کے متعلق سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتا ہے۔ اب ایسی چیزیں جن کا معاشرے میں رواج قائم ہوگیاہو وہ عادت اور معمول بن جاتی ہیں جیسے چلنا، بھاگنا، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، گفتگو کرنا، گاڑی چلانا ،کمانا وغیرہ کیلیے انسان پہلے دلیل قائم نہیں کرتا اور نہ ہی توجہیات بیان کرکے نتیجہ اخذ کرتا ہے بلکہ ایسا اُس نے سیکھا ہوتا ہے اگر اس نے سیکھا ہوا نہ ہوتو اس کیلیے تمام جزیات پر دلیل، توجہیات، حدود و قیود، موازنہ، نتائج، پڑتالِ نتائج اور حصولِ مقصد تک جا پہنچتا ہے کیونکہ اِس سے دماغ میں ترتیب قائم ہوجاتی ہے جسے لوگ کہتے ہیں کہ ہر کام کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے یہ کمپیوٹر کی زبان میں ایلگوردم کا مجموعہ Set of Algorithmsکہا جاتا ہے اور وہ وقت کے لحاظ سے مسلسل چلتے رہتے ہیں جبکہ دوسری انسٹرکشن پہلے پروسیسر کو انٹرپٹ کرتی ہے انتظار کرنے کے بعد عمل کراتی ہے RAMمیں موجود جگہ عام فہم کیلیے ہوتی ہے جبکہ عقل سٹوریج سے ڈیٹا حاصل کرکے اپنی RAM میں لاکر عمل کراتی ہے اسی طرح انسان کی صورت و سیرت میں شامل تمام معاملات عام فہم ہوتے ہیں۔ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مالک انسان اپنے اوزاروں اور حدود سے مکمل آشنا ہوتے ہیں لیکن دوسری چیزیں انکے دائرہِ اختیار سے باہر ہوتی ہیں انکے استعمال پر کافی سوچنا سمجھنا اورسیکھنا پڑتا ہے۔ گھر میں ایک ہی کام کرنے سے یا جیسے کھانا پکانے سے جلدی تو پک جاتا ہے لیکن اسکے مقابلے میں نیا پکانے والا شخص زیادہ احتیاط سے مزیدار پکالیتا ️ ہے
عام فہم Common Sensee: انسان کے دماغ میں دی گئی چیزوں کی ترتیب یا مروج ہوتی ہیں۔ کسی حد تک غیر ارادی بھی ہوتیں ہیں۔
عقل Rationalityy: دو یا دو سے زیادہ کا موزانہ کرنا دلیل کرنااور نتیجہ حاصل کرنا، غیرمعمولی فہم، مشکلات کا حل، محفوظ کرنا، استعمال کرنا۔
توجہیات Reasoningg: عام فہم، عقلی دلائل، اُصولی، حدود، پیش گوئیاں، قیاسی، منطقی و غیر منطقی نتائج، پڑتال اور سیرت بنتی ہے۔
کچھ لوگ دماغ میں کارٹیکس ⛹️ ⚽عام فہم کیلیے زیادہ جگہ رکھتے ہیں وہ پھُرتیلے ہوتے ہیں جبکہ ہیمی سفیرکی زیادتی سے عقل مند،ذکی انسان سست اور خاموش ️ ہوتے ہیں۔تعلیم انسان کی عقل کو بڑھاتی ہے جس سے زندگی بنتی ہے توجہیات سے دانشورجبکہ ہنر چیزوں کی عام فہم کو بڑھاتی ہیں جس سے شخصیت بنتی ہیں
انسان کسی بھی معاملے کیلیے توجہیات بنا کر عمل کرتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا عمل عام فہم یا خودساختہ بھی ہوتا ہے اورکچھ لوگ عقلی مشاہدات کی روشنی میں توجہیات بیان کرتے ہیں۔مجموعی خرد مندی کیلیے عقلی توجہیات بھی مجموعی ہوتی ہیں جس میں جذبات اور عام فہمی کو عقلی شواہدکے ماتحت مطالعہ کیا جاتا ہے کچھ معاملات، الفاظ انسان کے تحت الشعور میں بسنے لگتے ہیں ان کو توجہیات کی مصالحت کرنے سے شخصیت نکھرتی ہے ورنہ مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے جب معاملات ذاتی سطح، اجتماعی سطح، سیاسی سطح اور عالمی سطح کی طرف بڑھتے ہیں تو توجہیات کی نزاکت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جبکہ قیاسِ منطق Syllogismسے خاصا نقصان پہنچاتے ہیں ایسے ہی ذو معنی جملوں اور منطقی جملوں میں فرق ہوتا ہے۔ معلم کا کام اپنے موضوع میں تینوں چیزیں مہیا کرے۔
انسان کے نزدیک چیزیں جس میں اس کی جبلتیں بھی شامل ہوں انکا عام فہم ہونا مشکل بات نہیں جیسے ایک موضوع پر روزانہ بات کرنا یا اسکی ضرورت ہونا یا محسوسات میں شامل ہوجاناجیسے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مالک بننا، روزگار کی تلاش، گھر کی تعمیر وغیرہ اچھی علامات ہیں جبکہ کاسمیٹکس، ادویات، نشہ ور، موسمیاتی خرابی ️ ✈️کی وجوہات بننے والے بھی رواج بن جاتے ہیں مبلغ خود بھی اسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
انسان کی زندگی میں مذہب اور تہذیب عام فہم مروج ہوتی ہیں جس پر آواز اٹھانا یا اس کے مقابلے میں نئی بات بتانا چاہے وہ دلیل بہتر ہی ہو بتانے والے کو رواج کے خلاف چلنا یا بتاناانتہائی دشوار گزار ی کا سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے یہ مذہب کا معاملہ ہویا تہذیب کا۔ تبدیلی اتنی آسان نہیں ہوتی کسی کے کہنے پر لوگ تبدیل ہوجائیں اپنے تقابل دلائل کو عام فہم Common Senseبنانا پڑتا ہے۔ مذہب اور عام فہم تہذیب میں رواج اس لیے پکڑ لیتی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کیلیے قابلِ گفتگو، قابلِ استعمال ہوتی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں فلسفہ اور اس کی شاخوں پر بات کرنا عام انسان کیلیے ممکن نہیں کیونکہ عام انسان کی زندگی اس کے پیٹ کے گرد گھومتی ہے اور وہ عام فہم Common Senseکے گرِد زندگی گزارتا ہے اور اسی کو عقل سمجھتا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“