اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا َو ہُوَ الَّذِیْٓ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ ُ(۶:۳۷)ترجمہ:”وہی (اللہ تعالی) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیداکیا“،یعنی زمین وآسمان کی تخلیق محض کھیل تماشے کے طورپرنہیں ہوئی بلکہ یہ ایک نہایت سنجیدہ کام ہے جو حکمت کی بنیادپر کیا گیا ہے اور اس کے اندر ایک بہت بڑا مقصد پنہاں ہے۔ایک اور جگہ قرآن مجید نے تخلیق ارض کے بارے میں فرمایا اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہ‘ حَثِیْثًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمْرِہٖ اِلاَّ لَہُ الْخَلْقَ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۷:۴۵) ترجمہ”درحقیقت تمہارارب اللہ تعالی ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا،پھراپنے تخت پرجلوہ فرماہوا جورات کو دن پر ڈھانک دیتاہے اور پھر دن کورات کے پیچھے دوڑاتا چلاآتاہے،جس نے سورج چانداورتارے پیداکیے سب اسی کے فرمان کے تابع ہیں خبردار رہو کہ اسی کا خلق ہے اور اسی کا امر ہے،بڑا بابرکت ہے اللہ تعالی جوسارے جہانوں کا مالک و پروردگار ہے۔“زمین کے انتظامات کے بارے میں ایک اور مقام پر اس طرح ارشاد ہوتا ہے وَ ہُوَ الَّذِیْ مَدَّ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ وَ اَنْہٰرًا وَ مِنْ کُلِّ الثَّمٰرٰتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لٰاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۳۱:۳) وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍوَّ نُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُکُلِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لٰاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۳۱:۴) ترجمہ”اور ہی اللہ تعالی ہے جس نے زمین پھیلا رکھی ہے اس میں پہاڑ وں کے کھنٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریابہادیے ہیں،اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیداکیے ہیں اور وہی دن پررات طاری کرتاہے،ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں،اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جوایک دوسرے سے متصل واقع ہیں،انگور کے باغات ہیں،کھیتیاں ہیں،کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دہرے ہیں،سب کو ایک ہی پانی سے سیراب کرتاہے مگرمزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کم تر،ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔“
انسانی اندازے کے مطابق آج سے 4.54بلین سال پہلے اللہ تعالی نے زمین کووجود بخشا،زمین انڈے کی ہیئت کی مانندایک نیم بیضوی گول شکل کاایک گولا سا ہے۔خلا سے دیکھنے میں یہ ایک سبزرنگ کی گیند نظر آتی ہے جس کے گرد بعض اوقات ایک سفیدچادر سی لپٹی ہوتی ہے جو پانی سے بھرے بادل ہوتے ہیں اور دوہی مقامات سے روشنی پھوٹتی نظر آتی ہے ایک مکہ مکرمہ اور دوسرا مدینہ منورہ۔اللہ تعالی نے زمین کو نظام شمسی کاایک سیارہ بنایاہے اور اسے اپنی قدرت کاملہ سے سورج کے زہریلے اثرات سے محفوظ بناکراس میں زندگی کو ممکن کیاہے۔زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے اوراس دوران اپنے مدار کے گرد بھی گھومتی رہتی ہے،اپنے مدار کے گرد ایک چکر کو ایک دن کہاجاتا ہے اورسورج کے گردایک چکر365دن 5گھنٹے اور48منٹ میں پورا کرتی ہے،اس مدت کو ایک شمسی سال کہاجاتاہے۔زمین اپنے مدار کے گردکم و بیش 30کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے گھومتی ہے،یہ اتنی تیز رفتار ہے کہ اس رفتار سے چلنے والے کسی جسم پر قرار ممکن نہیں لیکن اللہ تعالی نے زمین کے اندر کشش ثقل نامی ایک ایسی قوت رکھ دی ہے کہ زمین اپنی موجودات کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے۔چاند زمین کے گرد گھومنے والا اکلوتا سیارہ ہے جو زمین کے گرد اپنا ایک چکر انتیس سے تیس دنوں میں مکمل کر لیتاہے۔چاند کی گردش زمین پر بھی اثرانداز ہوتی ہے خاص طور پر سمندر مدوجزریا جوار بھاٹا سورج اور چاند کی مشترکہ گردش کا نتیجہ ہوتاہے۔
زمین کے کم و بیش اکہترفیصد(71%)پر پانیوں کے سمندر واقع ہیں جبکہ باقی ماندہ پرخشک سرزمین ہے جبکہ خشکیوں کے درمیان جہاں دریابہتے ہیں وہاں سمندروں کے درمیان بھی جا بجا خشکی کے جزائر واقع ہیں۔اللہ تعالی نے ایک خاص اندازے کے مطابق زمین کو بائیس ڈگری تک سورج کی طرف ٹیڑھاکر کے رکھاہے جس کے باعث زمین کے پانیوں اور خشکی کے درمیان توازن برقراررہتاہے۔اگر زمین ایک ڈگری کم ٹیڑھی ہوتی تو زمین کے سارے پانی کے ذخائرجم کر برف بن جاتے اور زندگی کے امکانات معدوم ہو جاتے اور اسی طرح اگر زمین ایک ڈگری زیادہ سورج کی طرف جھکی ہوئی ہوتی، جبکہ ایک ڈگری بہت چھوٹی سی مقدار ہوتی ہے،تو زمین کے سارے برفانی تودے حدت شمسی سے پگھل کر پانی بن جاتے اور زمین پر ایک انچ بھی خشکی کاباقی نہ پچتااور زندگی کے امکانات ایک بار پھر معدوم ہو جاتے،پس یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ ہے کہ جہاں زمین کو خارجی اثرات بدسے بچایا وہاں داخلی طور پر بھی اس کی تخلیق اس طرح فرمائی کہ کل مخلوقات حیاتیہ اپنا عرصہ حیات بخوبی مکمل کر سکیں۔زمین کا اندرون بے حد گرم ہے،سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین ایک زمانے میں سورج کا حصہ تھی،علیحدگی کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ زمین کا بیرون تو ٹھنڈا پڑ گیالیکن اندرون اب بھی بے انتہا تپش کا حامل ہے۔بعض اوقات زمین کے اندرون سے گرمی کے باعث ابلتاہوااور کھولتاہوا مادہ جسے ”لاوہ“کہتے ہیں باہر نکل پڑتاہے،یہ بہتاہوابے حد گرمائش کا حامل اپنے راستے میں آنے والی چیزکو جلا دیتاہے اور کبھی کبھی تو اسی لاوے کے باعث زلزلے بھی آتے ہیں کیونکہ لاوے کی گرمائش زمین کی اندرونی سطح میں بہت زیادہ ردوبدل کر ڈالتی ہے۔اسی حدت ارضی کے باعث زمین کی تہوں میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لیے بے شمار قیمتی ذخائر دفن کررکھے ہیں،تیل،گیس اور معدنیات کا انبوہ کثیراسی گرمائش کا مرہون منت ہے جس کی وجہ سے زمین کے پیٹ میں بہت تیزی سے کیمیائی عملیات وقوع پزیرہوتے ہیں اور انسان کے لیے انعامات خداوندی تیارہوتے رہتے ہیں۔اللہ تعالی کی شان ہے کہ زمین کی بالائی سطح پر جہاں برفانی تودے اپنی برودت کی شدت پر قائم ہیں انہیں کی تہوں میں آگ کی تپش سے دھاتیں پگھلتی چلی جارہی ہیں۔
زمین پر سات براعظم ہیں جن میں ایشیا سب سے بڑاہے،افریقہ،شمالی و جنوبی امریکہ،یورپ،آسٹریلیااور انٹارکٹاشامل ہیں۔زمین کے دو سرے جنہیں قطب شمالی اورقطب جنوبی کہتے ہیں،یہ دونوں خطے انتہائی بلندی اور انتہائی پستی پر واقع ہیں۔زمین جب سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتی ہے تو نصف سال تک یہ زمینی قطب 22ڈگری کے جھکاؤ کے باعث سورج کے سامنے رہتے ہیں جبکہ بقیہ نصف سال سورج سے دور ہٹ جاتے ہیں چنانچہ کہاجاتا ہے کہ یہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے،تب نماز اور روزہ وغیرہ کے احکامات یہاں کس طرح مرتب ہو سکتے ہیں یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔بہرحال یہاں درجہ حرارت بعض اوقات-50ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی گرجاتاہے اور لوگ برف کے گھروں میں اقامت پزیر رہتے ہیں کیونکہ برف کا درجہ حرارت صفرٖگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے اور یہ گھروندے باہر کی نسبت گرم ہوتے ہیں۔تاہم یہاں زندگی اس طرح ممکن نہیں ہے جیسے زمین کے وسطی علاقوں میں تہذیب و تمدن اپنی پوری قوت سے تاریخی سفر ارتقاء طے کرتے ہیں اس کے باوجود بھی یہاں کی مخلوقات اپنے خالق کے قائم کردہ اصول ہائے حیات کے مطابق زندگی کے ایام پورے کرتی ہیں۔پوری زمین میں دریاؤں کا بہاؤ شمال سے جنوب کی طرف رہتا ہے اور یہ اللہ تعالی کا قائم کردہ نظام ہے جس کے بارے میں قرآن مجید نے کئی جگہ بتایا کہ کس طرح اللہ تعالی سمندروں سے بادل اٹھا کر پہاڑوں پر برساتاہے اور پھر وہ پانی بہتاہوا باردیگر سمندروں میں آن گرتاہے۔زمین کی سطح،زمین کی فضا اور زمین کااندروں خدائی رازوں سے بھرپور ہیں،کہیں کہیں تو انسان کی رسائی ہو چکی ہے اور بے شمار مقامات و وقوعات ایسے ہیں کہ انسان ابھی تک ان کے مشاہدے کے بعد انگشت بدنداں ہے۔
یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد سے جہاں سیکولر تہذیب نے انسان کے اخلاق اور معیشیت کی تباہی پھیردی ہے وہاں صاف شفاف زمین کو بھی اس یورپی انقلاب نے بے پناہ نقصان پہنچایاہے اور یورپی کارخانوں نے زمین کی آلودگی میں حددرجہ اضافہ کر کے اسے گندگی کااڈھیر بنانے کی بھونڈی کوشش کی ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آلودگی اس زمین کے سینے پر سب سے بڑی ایسی قاتل بن گئی ہے جوہمہ وقت انسانی جانوں کے درپے ہے،دنیابھرکے 100ملین سے زائد افرادآلودگی کے باعث ملیریااورایچ آئی وی کا شکارہیں،ایک بلین سے زائد افراد پینے کے صاف پانی جیسی نعمت سے محروم ہیں،14بلین پونڈ سے زیادہ وزن کا حامل پلاسٹک کافضلہ ہر سال سمندروں میں پھینک دیاجاتاہے اورصرف میکسیکو کی خلیج میں چلنے والے جہازسالانہ 1.5میٹرک ٹن نائٹروجنی آلودگی کاباعث بن رہے ہیں جس کے باعث ایک ملین سے زائد سمندری حیات کوموت کا آسیب نگل جاتاہے،کارخانوں کے قریب رہنے والے انسانوں کو پھیپھڑے کے کینسرمیں مبتلا ہونے کے امکانات 20%تک زیادہ ہوتے ہیں اور یہ بہت زیادہ خطرناک حد تک کی شرح ہے،امریکہ جیسے ملک کی 46%جھیلیں آلودگی کے سبب آبی حیات اور انسانی تیراکی وسیاحت کے قابل نہیں رہیں،ہرسال امریکہ کے قدرتی صاف شفاف اور صحت بخش پانیوں میں 1.2ٹریلین گیلن زہریلا مواد ڈال دیاجاتاہے جس کے باعث وہاں کے بچے پانچ سال سے بھی کم عمروں میں آلودگی کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔اسی حقیقت کو وحی الہی نے سینکڑوں برس پہلے بتادیاتھا کہ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(۰۳:۱۴)“ترجمہ:”خشکی میں اور دریاؤں میں فساد برپاہوگیاہے لوگوں کی اپنے ہاتھ کی کمائی سے تاکہ(اللہ تعالی) مزہ چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا شاید کہ وہ باز آجائیں“۔پس اللہ تعالی نے تو ایک بہت عمدہ اور بہترین زمین جو انسانی تقاضوں کے لیے ایک بہترین جائے قرار تھی،نسل آدم کو عطا کی تھی لیکن انسان نے اپنے ہی ہاتھوں ایک غیر فطری،سیکولر نظام کے تحت اس کی شفافیت کوتہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔
یورپی سیکولرازم کی زمین دشمنی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ منافقت اور کذب و فساد کے مرقع ”سیکولرازم“نے اپنی اس کارستانی پرپردہ ڈالنے کے لیے انتہائی چابک دستی سے ”آلودگی“کو ایک معاشی ہتھیار بناکر اس کاسارا نزلہ ایشیاپر اتارنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ کہ ایشیا کی زمین آج بھی یورپ اور امریکہ کی زمین سے زیادہ صاف اور صحت بخش ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ غیرفطری نظریہ زندگی کے باعث یورپ اور امریکہ میں صدیوں سے دو رویے بالکل متضاد سمت میں رواں دواں ہیں،ایک طرف توآبادی میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے اور عمارتوں اور سڑکوں کے بھرے ہوئے شہروں میں کوئی بچہ خال خال نظر آتاہے تو دوسری طرف کارخانوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے حتی کہ جو ہفتہ بھر میں کہیں ایک چیز تیار ہواکرتی تھی تو صنعتی انقلاب کی بدولت اب گھنٹوں میں ایسی سینکڑوں چیزیں تیار ہو جاتی ہیں۔ان مصنوعات کی کھپت توآبادی کے ہاں ہی ممکن تھی جو کہ امریکہ و یورپ میں ناپید ہے،آبادی میں کمی کے ہوشربا اعداوشمار کے باعث اب اس تہذیب کے سرخیلوں نے ایشیائی باشندوں کے لیے اپنی شہریت کے دروازے کھول رکھے ہیں۔چنانچہ آلودگی کو ختم کرنے کی بجائے اس تہذیب کا سارا زور اس بات پر صرف ہو رہاہے کہ ایشیائی اقوام میں آلودگی کا شور مچاکر انہیں مجبور کیاجائے کہ کارخانے مت لگاؤ،نتیجۃ ان ملکوں کی بڑھتی ہوئی آبادی امریکہ اور یورپ کی مصنوعات خریدے گی جس کے باعث ملٹی نیشل کلچر کو بڑھوتری میسر آئے گی اور دولت کا بہاؤمشرق سے مغرب کی طرف ہی رہے گا۔اس پروپیگنڈے کے تحت ایشیائی عوام کا خون نچوڑنے والے کبھی کبھی انہیں بے وقوف بنانے کے لیے آٹے میں نمک کے برابر ایسی امداد پھینک دیتے ہیں جس کا مقصد آلودگی کے شعور کو بیدار کرنا ہوتا ہے اور پس پردہ مقصد معاشی جنگ میں اپنے ہتھیارکو مزید تیزکرنا تاکہ مجبوروبے کس اقوام کی رگوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ عرق حیات کشیدکیاجاسکے۔انسانیت کے یہ دعوے دار دراصل انسانیت کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور ان کی تہذیب نے ہمیشہ آزادی کے نام پر غلامی،تعلیم کے نام پر تہذیبی تسلط،امن کے نام پرسردجنگ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نام پر باقی ماندہ دنیاؤں پر اپنا سیاسی تسلط قائم کرنے کی کوشش کر کے اللہ تعالی کی اس زمین پر اپنے فرعونی و نمرودی نظام کے خونین پنجے گاڑھنے کو کوشش کی ہے۔چائلڈ لیبر،آزادی نسواں،ویمن امپاورمنٹ،انٹرفیتھ ڈائلاگ،تعلیم بالغاں،ہیومن رائٹس،ڈیموکریسی اورنہ جانے کتنے ہی خوبصورت بنے ہوئے مکڑی کے جال ہیں جو دراصل معاشی جنگ کے زہریلے ہتھیارہیں جن کی مدد سے انسانوں کی قاتل اورٍ انسانیت دشمن ”یورپی سیکولر تہذیب“نے اس زمین کو ظلم، نانصافی اور معاشی عدم مساوات سے بھر دیاہے۔
اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا عظیم شاہکار تخلیق کیااور پھر اسے انسان کے قابل بنایااور انسان کو یہ عزو شرف عطا کیاکہ اسے اپنا خلیفہ یا نائب بناکر یہ کرہ ارض اس کے حوالے کیاتاکہ وہ اس زمین کے مالک کے مطابق کی رضاکے مطابق اس زمین پر اپنا حق حکمرانی استعمال کر سکے۔اللہ تعالی نے قرآن میں بتایا کہ وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً َ(۲:۰۳) ترجمہ:”پھریادکرو وہ وقت جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں“۔اللہ تعالی نے جسے خلیفہ بناکر اس زمین کا نظا م اس کے حوالے کیا،تاریخ شاہد ہے کہ اس نے اپنے آقا کی نشست سنبھال لی اور وقت نے دیکھاکہ انسان ہی اپنے جیسے انسانوں کا خدا بن بیٹھااور اس نے فرعون اور نمرود اور ابو جہل کے روپ دھار لیے۔ان انسانی کرداروں کے باعث زمین فسادسے بھر گئی۔اللہ تعالی نے انبیاء علیھم السلام کو بھیجا تاکہ انسانوں کو انسانوں کی خدائی سے نجات دلا کر تو ایک اور سچے معبود کے تابع کر دیا جائے۔زمین کے فراعین نے انبیاء علیھم السلام اور انکے ماننے والوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیااور ایک معرکہ کارزار آج تک جاری ہے۔اس زمین کے اصل وارث وہی لوگ ہیں جو اس زمین کے مالک کے بھیجے ہوئے سامان ہدایت کے حامل ہیں لیکن یہ عجائبات عالم میں سے ہے کہ غاصبین نے اس زمین کو اپنی تصرف گاہ بنارکھاہے اور اس کے خزانوں کو اپنی ملکیت سمجھنے لگے ہیں۔ماضی کی یہ جہالت آج سیکولرازم کے نام سے انسانیت کی گردنوں پر مسلط ہے اورتہذیب اورسود کی بیڑیوں سے اس سیکولرازم نے کل انسانیت کو غلامی کی زنجیریں پہنا کر اللہ تعالی کی اس زمین کو ظلم و ستم سے بھر دیاہے لیکن بہت جلد یہ زمین اپنے حقیقی وارثوں کی طرف پلٹنے والی ہے جب یہاں کا نظم و نسق انبیاء علیھم السلام کی پیروکاروں کے پاس پلٹ آئے گا،انشاء اللہ تعالی۔