سعودی عرب اور ایران کے آپس میں کئی دہائیوں تک بڑے خوشگوار تعلقات رہے۔ ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی اور سعودی حکمرانوں کے دشمن مشترک تھے۔ انقلابی اور کمیونسٹ۔ دونوں بادشاہتیں تیل کی دولت سے خوشحال تھیں۔ باقی دنیا کا اس سیاہ سیال پر انحصار تھا۔ دونوں بادشاہتیں اپنی حفاظت کے لئے اپنے مشترکہ دوست امریکہ کو دیکھتی تھیں۔
امریکہ نے یہاں پر ماضی میں مداخلت کی تھی۔ 1953 میں جب شاہ کو منتخب وزیرِ اعظم محمد مصدق سے ہونے والی لڑائی کی سبب ملک چھوڑنا پڑا تھا تو سی آئی اے اور برطانوی انٹیلی جنس نے مصدق کا تختہ الٹانے کیلئے خفیہ آپریشن کیا تھا۔ تہران میں شاہ کی واپسی ہوئی تھی اور محمد مصدق جیل میں ڈالے گئے تھے۔ امریکہ نے اپنی طاقت سعودی عرب میں بھی دکھائی تھی۔ جب مصر یمن پر حملہ آور ہوا تھا اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ حکمران کو خطرہ ہوا تھا تو امریکی فضائیہ 1963 میں سعودی آسمان کے اوپر حرکت میں آئی تھی۔
لیکن یہ سب ماضی تھا۔ امریکہ ویت نام کے زخموں سے چور تھا۔ کسی بھی بیرونی مہم جوئی کی اشتہا نہیں رکھتا تھا۔ امریکہ میں 1977 میں جمی کارٹر صدر منتخب ہوئے، جن کا نعرہ باقی دنیا میں عدم مداخلت اور اپنے کام سے کام رکھنا تھا۔ دوسری دنیا میں ہتھیاروں کی فروخت کو روکنا اور انسانی حقوق کو پروموٹ کرنا ان کے لئے خارجہ پالیسی کی ترجیح تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شاہ کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو ایران کو آنسو گیس کی فروخت کو امریکا نے روک دیا۔ 1978 میں ہونے والی ہڑتالوں، مظاہروں اور جھڑپوں کی طرف امریکہ نے توجہ نہیں دی۔ امریکی سٹیٹ سیکرٹری سائیرس وینس کے مطابق امریکہ کو دنیا میں عسکری طاقت نہیں، اخلاقی مثال بن کر دکھانا ہے۔ امریکہ نے ایرانی شاہ کو جمہور کی آواز پر توجہ دینے کی ہدایت کی۔ پہلی فروری 1979 کو شاہِ ایران نے ملک چھوڑ دیا۔ اس کے پڑوسی، افغانستان میں اپریل 1978 میں کمیونسٹوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر طاقت حاصل کر لی، امریکہ نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا۔
سعودی عرب کے لئے یہ بڑا پریشان کن وقت تھا۔ نئی ایرانی حکومت سے اسے خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔ سعودی عرب نے انقلاب کے بعد بھی ایران کو پاوٗں پر کھڑے ہونے کے لئے امداد بھجوائی تھی، لیکن یہ احساس تھا کہ تھیوکریسی آ جانے کے بعد صدیوں پرانے شیعہ سنی کے جھگڑے ایک بار پھر سر اٹھا سکتے ہیں۔ جنوبی یمن میں مارکسٹ حکومت حاصل کر چکے تھے اور سوویت امداد سے شمالی یمن میں سعودی اتھادیوں کو غیرمستحکم کر رہے تھے۔ بحیرہ احمر کی دوسری طرف مارکسسٹ ایتھیوپیا میں کیوبا کی فوجیں اور سوویت اسلحہ تھا۔ ان کی مدد سے انہوں نے سعودی عرب کے ایک اور اتحادی صومالیہ کو شکست دے دی تھی۔ افغانستان میں سوویت اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔
تیل کی عالمی سپلائی 1979 میں شدید تعطل کا شکار ہو گئی۔ امریکہ میں دو تہائی پٹرول پمپ بند پڑے تھے۔ پٹرول حاصل کرنے کیلئیے گاڑیوں کی لمبی لائینیں لگ رہی تھیں۔ اس وقت میں سعودی عرب نے روزانہ دس لاکھ بیرل آوٗٹ پٹ کے اضافے سے عالمی بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکہ کو سعودی خدشات کا اندازہ نہیں تھا۔ سی آئی اے کے بھیجے گئے اپریل 1979 میں بھیجے گئے مراسلے میں لکھا تھا۔ “خطے میں ہونے والے واقعات کا سعودی عرب پر اثر نہیں۔ سعودی عرب میں رہنے والے شیعہ ایرانی انقلابیوں سے کوئی تعلقات نہیں رکھتے۔ ان کا اپنی حکومت سے بغاوت سے خطرہ نہیں۔ سعودی عرب ہر لحاظ سے مستحکم ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان حالات کے پسِ منظر میں 2 اکتوبر 1979 کو ولی عہد شاہ فہد کی جدہ کے محل میں امریکی سفیر جان کارل ویسٹ سے ملاقات ہوئی۔ امریکی سفر کو شاہ فہد نے یہ کہا۔
“سوویت یونین ایتھیوپیا سے افغانستان تک شرارتوں میں مصروف ہے اور امریکہ بزدلی کا شکار ہے۔ بجائے اس کے کہ شاہِ ایران کی پرواہ کی جاتی، ان کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ایران کو دیکھیں کہ وہاں پر کیا ہوا ہے۔ ان کے معاشرے کے بہترین لوگ، فوج کے بہترین دماغ، پروفیشنل، سول سرونٹ اور تمام قابل لوگ، یا تو انقلابیوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا ملک سے نکال دئے گئے ہیں۔ اور امریکی صدر کے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
افغانستان ہاتھ سے نکل چکا ہے، اگلی باری پاکستان کی ہو سکتی ہے۔ اس خطے میں عوام کی طرف سے امریکہ کی مخالفت کرنا ایک فیشن بن گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لوگ امریکہ کی طاقت دیکھنا چاہتے ہیں۔ تین چوتھائی عرب ملک آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انتظار کر رہے ہیں کہ ہمارا طاقتور، عقلمند اور ہوشیار دوست واضح پیغام دنیا کو دے کہ بس! بہت ہو گیا۔ مبہم الفاظ نہیں، کسی تذبذب کے بغیر سٹینڈ۔ خطرات بڑے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں 1979 میں امریکی سفیر کو اغوا کر لیا گیا تھا اور ان کو چھڑوانے کا آپریشن ناکام ہونے میں سفیر ایڈولف ڈبز مارے گئے تھے۔ جبکہ شاہ فہد کی اس ملاقات کے صرف ایک ماہ بعد، پوری دنیا نے امریکہ کی کمزروی کا ذلت آمیز مظاہرہ دیکھ لیا۔ 4 نومبر 1979 کو انقلابی طلباء نے تہران میں امریکی سفارتخانے پر ہلہ بول دیا۔ عملے کے 66 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ ان کو آںکھوں پر پٹی باندھ کر کیمروں کے آگے پیش کیا گیا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ ایران کے وزیرِ اعظم مہدی بزرگان کو معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ان کو بھی حکومت چھوڑنا پڑی۔ ایران میں تبدیلی مکمل ہو چکی تھی۔
اور پھر پوری دنیا نے ایک اور حیرت انگیز منظر دیکھا۔ امریکہ کے آئیڈیلسٹ صلح جُو صدر جمی کارٹر نے اس بے مثال بے عزتی کا بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ اس واقعے کے اگلے روز ہونے والی پالیسی میٹنگ میں اس واقعے سے نپٹنے پر دی جانے والی تجاویز کو رد کرتے ہوئے جمی کارٹر نے ان الفاظ میں جواب دیا، “ہم کیا کر سکتے ہیں”۔
اپنی اس پالیسی اور ایران کے بحران کے نتیجے میں امریکی صدر کارٹر کو صدارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ رونالڈ ریگن نے انہیں اسی بنیاد پر بآسانی انتخابات میں شکست دے دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلابی طلباء کے تہران ایمبیسی پر قبضے کے بعد انہوں نے عملے کو یرغمال بنانے کے ساتھ ایک بہت بڑا خزانہ حاصل کر لیا۔ یہ خفیہ انفارمیشن کا خزانہ تھا۔ تاریخ میں اتنی زیادہ کلاسیفائیڈ انفارمیشن پہلے کبھی نہیں کھوئی گئی تھی۔ تہران کی امریکہ سے ہونے والی خط و کتابت تہران میں “اسناد لانه جاسوسي آمريکا” 77 جلدوں کی صورت میں شائع ہوئی۔
اس میں دوسری چیزوں کے ساتھ سعودی ولی عہد کی امریکی سفیر کے ساتھ ہونے والی ون ٹو ون ملاقات کی تفصیل بھی لکھی تھی۔ سعودی شاہی خاندان میں اس معلومات کے لیک ہو جانے پر شرمندگی اور غصہ تھا۔ 1979 میں شروع ہونے والی واقعات کی کڑی کے آنے والی دہائیوں میں دور رس نتائج نکلنے تھے۔ صدیوں سے ہونے والی فرقہ وارانہ جنگوں کی آگ، جو بڑی حد تک ٹھنڈی پڑ چکی تھی اور کئی جگہوں میں مقامی پاکٹس تک محدود ہو رہی تھی ۔۔۔ ایک بار پھر سلگنے لگی تھی۔
انقلابِ ایران، سعودی عرب میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیاں، افغانستان میں جنگ کا آغاز، مصر اسرائیل معاہدہ، عراق میں صدام حسین کی طرف سے بعث پارٹی کے سینکڑوں لیڈروں کا سفاکی سے کھلے عام صفایا ۔۔۔ اس خطے کی تاریخ میں 1979 بڑی تبدیلیوں کا سال تھا۔