پاکستان سے تعلق رکھنے والی ثریا شہاب نے ریڈیو ،ٹیلیویژن کی صحافت میں ، ادب اور شاعری عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔ ثریا شہاب نے ریڈیو ایران زاہدان، پاکستان ٹیلی ویژن، بی بی سی لندن اور ریڈیو دوئچے ویلے جرمنی میں براڈ کاسٹنگ کی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے اپنے براڈکاسٹنگ کیریئر کا آغاز ریڈیو تہران کے ایک میگزین پروگرام سے کیا تھا، ان کا یہ پروگرام عوام بالخصوص نوجوانوں میں بہت مقبول تھا۔ نوجوان اس پروگرام کا بے چینی سے انتظار کیا کرتے تھے۔ اس پروگرام کا آغاز کچھ یوں ہوا کرتا تھا،" آواز کی دنیا کے دوستوں یہ ریڈیو ایران، زاہدان ہے" ۔ بعدازاں ثریا شہاب نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور نیوز ریڈر ملازمت کا آغاز کیا، انہوں نے اس شعبے میں بہت اعلیٰ مقام حاصل کیا اور اپنے عہد کی سلیبریٹی بن گئیں۔
1980ء کی دہائی کے وسط میں ثریا شہاب نے بی بی سی اردو سروس میں شمولیت اختیار کی اور لندن منتقل ہوگئی تھیں۔ ان کی 5 کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں دو ناول، ایک افسانوی مجموعہ ایک شعری مجموعہ’’ خود سے ایک سوال‘‘ اور " سفر جاری ہے " کے نام سے ایک سفرنامہ شامل ہے ۔ ثریا شہاب نے پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے اسٹاف حقوق کے لیئے بھرپور جدوجہد کی جبکہ انہوں نے راولپنڈی میں " پاکستان یوتھ لیگ " کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی تھی جس کے تحت انہوں نے پانی کے متعدد کنویں کھدوائے اور کئی اسکول تعمیر کرائے ۔ ثریا شہاب 2000 میں بریسٹ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان واپس آ گئیں اور اپنے وطن میں علاج اور دفن ہونے کو ترجیح دی ۔ وہ 19 ستمبر 2019 کو اسلام آباد میں انتقال انتقال کر گئیں اور اسلام آباد میں ہی آسودہ خاک ہو گئیں ۔