(Last Updated On: )
اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی
بیچو گے اگر خواب تو قیمت نہ ملے گی
سوچا ہی نہ تھا یوں بھی اُسے یاد رکھیں گے
جب اُس کو بھلانے کی بھی فرصت نہ ملے گی
(پیر زادہ قاسم)
صحافی، کالم نویس اور دانشور ارشاد حقانی6 ستمبر 1928ء کو قصور میں پیدا ہوئے۔ارشاد احمد حقانی علم وادب کا ذخیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے باک اور نڈر صحافی تھے ۔ پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور تاریخ میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ تعلیم کے بعد1941ء میں جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے ۔جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کے لیے بھی کام کیا۔ ’’تسنیم‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جماعت ِ اسلامی کے مرکزی شعبہ نشرواشاعت کے ناظم بھی تھے۔ آج کے دور کی اصطلاح میں اسے سیکرٹری انفارمیشن یا سیکرٹری اطلاعات کہنا چاہئے۔ اُس زمانے میں جماعت ِ اسلامی جن نکات پر اپنی سیاسی مہم چلا رہی تھی اُن میں اسلامی دستور کا نفاذ‘ سرکارِ دو جہاں ؐ کے نبی ٔ آخر الزماں ہونے کے عقیدے کی حفاظت اور اس عقیدہ پر یقین نہ رکھنے والے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ شامل تھا۔
روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کی ادارت کے دوران عوامی جمہوریہ چین کاپہلا دورہ کرنے والے صحافیوں کے وفد میں شریک ہوئے‘ اس وفد میں ’’ڈان‘‘ کے الطاف حسین ’’پاکستان ٹائمز‘‘ کے فیض احمد فیض ’’امروز‘‘ کے احمد ندیم قاسمی اور ’’جنگ‘‘ کے میر خلیل الرحمن بھی شامل تھے۔
1957ء ماچھی گوٹھ میں ہونے والی اجتماع میں ارشاد احمد حقانی اور امین اصلاحی کے ہمراہ جماعت ِ اسلامی سے الگ ہوگئے ۔ارشاد احمد حقانی روزنامہ ’’تسنیم‘‘ سے سبکدوش ہونے کے بعد انگریزی روزنامہ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے انگریز ایڈیٹر کلاڈسکاٹ سے ملنے گئے اور اپنی تعارفی چٹ پر لکھا ’’نصف گھنٹہ پہلے تک اردو روزنامہ ’’تسنیم‘‘ کا ایڈیٹر۔‘‘ کلاڈسکاٹ نے انہیں کسی تأمل کے بغیر سب ایڈیٹر مقرر کردیا۔ مگر یہاں انہوں نے ایک دو مہینے ہی کام کیا اور ایڈیٹر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنے آبائی قصبہ قصور جانا چاہتا ہوں۔ کلاڈ سکاٹ نے انہیں اجازت دیتے ہوئے قصور میں ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کردیا۔
روزنامہ ’’تسنیم‘‘ اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ کے بعدارشاد احمد حقانی نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج قصور میں بحیثیت پرنسپل کے کیا ۔ جہاں انہوں نے تاریخ اور علوم اسلامی کے مضامین بھی پڑھائے۔
تدریس کے ساتھ صحافت سے بھی اپناتعلق برقرار رکھا اور مختلف اخبارات میں اداریہ نویسی کرتے رہے جن میںروزنامہ ’’ وفاق‘‘ اور’’ نوائے وقت ‘‘کے نام سرِ فہرست ہیں ۔ 1981ء میں جب لاہور سے روزنامہ جنگ اخبار کی اشاعت شروع ہوئی تو وہ اس کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ ارشاد احمد حقانی طویل عرصہ روزنامہ جنگ لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ان کا مقبول و معروف کالم ’’حرفِ تمنا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتا رہا۔اس کالم کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب عمدہ وضاحت، حقیقت پسندی، غیر جانبداری اور بے باکی کے ساتھ حقائق و واقعات کا تجزیہ کرنا تھا۔ ان کے تجزیوں کو قارئین ہی نہیں ملک کے مقتدر طبقے بھی بڑی توجہ سے پڑھتے تھے۔
1996ء میں جب صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی تو ملک معراج خالد کی نگران کابینہ میں وزیر اطلاعات بھی رہے۔ وزات کے دوران وزارت کا نام بدل کر وزارتِ فروغِ ذرائع ابلاغ رکھ دیا۔ ارشاد احمد حقانی نے کئی کتابیں بھی تحریر کی تھیں جن میں اُن کی غیر مطبوعہ سوانح عمری ’’پون صدی کا قصہ‘‘بھی شامل ہے ۔
ارشاد احمد حقانی عمر بھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کے سچے پرستار اور علمبردار رہے۔ارشاد احمد حقانی نے اپنے صحافتی سفر میں اعلیٰ صحافتی اقدار کو نبھاتے ہوئے اور ایک امانت دار کا فرض ادا کرتے ہوئے ہمیشہ حق اور سچ کی آواز بلند کی۔جو لکھا خوب سوچ سمجھ کر مدلل اور بھر پور لکھا۔حقانی صاحب کو لکھنے اور بولنے کا طریقے سے خوب واقف تھے ۔ بعض اوقات دلائل کا انبار لگاتے تو کالم کئی اقساط پر مشتمل ہوتے ۔ کالم طویل ہونے کے باوجود دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے کالم کوچار پانچ قسطوںمیں بھی پھیلا دیتے تھے۔ مذہب کے معاملے میں میانہ روی اور سیاست کے معاملہ میں وہ دوٹوک انداز میں اظہارِ خیال کرتے تھے۔ان کاآخری کالم بھی صدر زرداری کو نصیحت کے بارے میں تھا۔عوامی مسائل پر وہ بھرپورانداز میں نہ صرف رائے زنی کرتے تھے بلکہ ان کے حل کے لیے مناسب تجاویز بھی دیا کرتے تھے۔
ارشاد حقانی صاحب ایک منجھے ہوئے اداریہ نویس تھے۔ ان کی کالم نویسی کی ابتداء تو رونامہ ’’جنگ‘‘ میں ’’حرف تمنا‘‘ کے نام سے چھپنے والے کالم سے ہوئی۔ ان کی اداریہ نویسی کے جوہر تسنیم‘ وفاق‘ کچھ عرصہ کے لئے نوائے وقت اور پھر جنگ میں کھلتے چلے گئے۔ارشاد احمد حقانی ’’وفاق‘‘ میں مضامین لکھتے رہے اور مختلف ادوار میں ’’وفاق‘‘ کے اداریہ نویس بھی رہے۔
ارشاد احمد حقانی نے جنہیں ہمیشہ خلوت عزیز رہی انتقال سے چند لمحے قبل اپنی بیٹی اور بیٹوں سے کہا مجھے کچھ وقت کے لئے علیحدگی درکار ہے‘ میں آرام کرنا چاہتا ہوں اور یہ الفاظ ادا کرنے سے چند ہی ساعتیں بعد وہ ابدی آرام کے لئے چلے گئے اور اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔معروف کالم نویس، سینئر ایڈیٹر روزنامہ جنگ ‘ارشاد احمد حقانی طویل عرصہ عارضہ ٔ قلب میں مبتلا رہے ۔ اسی مرض میں مبتلارَہ کر24 جنوری 2010ء کو81برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے ۔ نمازِجنازہ لاہور میں ادا کی گئی بعدازاں قصور میں ان کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ پسماندگان میں دوبیٹے اوردوبیٹیاں ہیں۔ 24 جنوری 2017 ء کو ان کی ساتویں برسی ہے۔اس میں دورائے نہیں کہ ارشاد احمد حقانی ایک عہد ساز شخصیت تھے۔اور اب ہم میں نہیں رہے۔ اب عوام کو ایک متوازن سوچ کے کالم بعنوان حرف تمنا پڑھنے کو نہیں ملیں گے۔
٭
حوالہ جات: (آن لائن )
1۔وِیکی پیڈیا اُردو/ارشاد احمد حقانی
2۔روزنامہ پاکستان ، مورخہ 24جنوری 2017ء، 514457، بلاگ : اختر سردار چودھری
3۔تاریخ ِ پاکستان ، 302-413( ٹائیٹل )
4۔روزنامہ جنگ 873221/، مضمون : خاور نیازی
5۔ملت ڈاٹ کام /مضمون : جمیل اطہر
٭٭٭