گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب کے سامنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے والے ایک جوڑے کا کیس تھا۔ لڑکی کے والدین نے لڑکے کے خلاف اپنی بیٹی کو حبس بیجا میں رکھنے کا کیس دائر کیا ہوا تھا۔ لڑکی کو پیش کیا گیا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی عمر 22 سال ہے۔اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ لڑکے نے اسے اغوا کیا ہے اور نہ ہی حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے۔
والدین کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل صاحب نے ایک جعلی نادرا سرٹیفکیٹ بنوا رکھا تھا جس میں لڑکی کی عمر کم دکھائی گئی تھی کہ اس کی ابھی شادی کی عمر ہی نہیں ہے۔ اس کاغذ کی تھوڑی سی پڑتال کے بعد ہی اس کی حقیقت سامنے اگئی۔ اس کاغذ اور کچھ اور کاغذوں کے موازنے سے یہ پتہ چل رہا تھا کہ مبینہ مغویہ لڑکی اور اسکے ایک بھائی کی عمروں میں صرف چند دن کا فرق ہے۔ شک پڑنے پر جج صاحب نے ماں سے پوچھا تمہاری یہ بیٹی اور فلاں بیٹا جڑواں ہیں؟ ان کی عمروں میں چند دن کا فرق ہے۔ وہ جھٹ سے بولی نہیں۔ بیٹا دو سال چھوٹا ہے۔ ثابت ہوگیا کہ لڑکی کیخلاف یہ نادرا سرٹیفکیٹ جعلی بنوایا گیا تھا۔پوچھنے پر وکیل صاحب بھی کچھ مناسب جواب نہ دے سکے۔جج صاحب ان پر تھوڑا برہم بھی ہوئے کہ عدالت کے سامنے جعلی کاغذات پیش کرتے ہیں۔ وکیل صاحب کا یہ حربہ کامیاب نہ ہوا تو عدالت سے درخواست کی کہ ماں کو بیٹی سے کچھ دیر الگ ملاقات کا موقع دیا جائے۔ جج صاحب پھر ناراض ہوئے کہ یہی درخواست اپ شروع میں ہی کر لیتے تو بہتر نہیں تھا؟اپ کو شروع سے ہی اپنا کیس مناسب طریقے سے پیش کرنا چاہیے تھا نہ کہ جعلی کاغذ پیش کرتے۔ خیر، جج صاحب نے اجازت دے دی۔ ماں کو تقریبا ڈیڑھ گھنٹے تک لڑکی کے ساتھ الگ کمرے میں ملاقات کا موقع دیا گیا۔ جب دوبارہ بلا کر پوچھا گیا تو لڑکی اب بھی اپنے بیان پر قائم تھی۔ کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی جانا چاہتی ہے۔ اس کے شوہر کو بھی اندر بلوایا گیا۔ اس کی قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے تھے۔ باہر لڑکی والوں نے اس پر تشدد کیا تھا۔ جوڑے اور اسکے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں تحفظ دیاجائے۔ باہر لڑکی کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد ان دونوں کو مارنے کے درپے ہے۔ وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ جج صاحب کا جواب تھا، "جو لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر لیتی ہے، اتنا بڑا قدم اٹھا لیتی ہے، وہ اپنی حفاظت بھی خود ہی کرے، عدالت تحفظ نہیں دے سکتی، دونوں جا سکتے ہیں"۔
مجھے نہیں پتہ باہر نکل کر اس جوڑے کا کیا بنا کہ مجھے ابھی اپنے کیس کی باری کے انتظار کیلئے عدالت کے اندر ہی رکنا تھا۔ تاہم تب سے اب تک میں صوبے کی سب سے بڑی عدالت کے اس رویے پر ہی غور کر رہا ہوں کہ اس نے کیا کیا۔۔۔"
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...