باغیچے میں ٹہلتے ہوئے وہ کافی آگے تک نکل آئی۔ ۔ وہیں جہاں سےامرود کے پیڑ شروع ہوتے تھے۔ ہوا میں امرودوں کی سوندھی سوندھی سی مہک رچی تھی۔ سامنے پیڑ پر ایک طوطا بیٹھا امرود کھا رہا تھا ۔ امرود گو کہ آدھا ادھیڑا جا چکا تھا مگر ہنوز پیڑ سے لٹکا تھا۔ اسے لگا یہ امرود نہیں اسکا دل ہے جو ابھی تک نیم جان سا اس کے سینے میں دھڑک رہا ہے۔ ۔ اس نے زمین سے پتھر اٹھا کر طوطے کو دے مارا اور بے اختیار بولی "ہٹ پرے طوطا چشم کہیں کا" طوطا ٹیں کی آواز کےساتھ پھرر سے اڑ گیا۔ ۔ دو لمحے کو درختوں کے پتے سرسرائے اور پھر پہلے کیطرح طویل خاموشی چھا گئی۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ارے دیکھو تو کتنے پیارے امرود رکھے ہیں تمہارے لیے۔ تم تو لڑکیوں سے بھی زیادہ انتظار کرواتے ہو۔ سچ تم لڑکی ہوتے اور میں لڑکا۔ ۔ "
"اچھا پھر کیا ہوتا؟" اس نے آنکھیں گھمائیں اور پھر بولا ۔"چلو پہلے امرود تو دو۔ بھئی ہم نے یہ کچے امرود تو سنے ہیں۔ پکے بھی۔ یہ پیارے امرود کون سے ہوتے ہیں۔؟ہم بھی تو دیکھیں ذرا" اس کی آنکھوں میں شریر سی مسکان تھی۔ جس کی تاب سے اسکی نظریں ہمیشہ اس کے چہرے سے ہٹ کر ادھر ادھر بھٹکنے لگتی تھیں۔ اور گالوں پر سرخی مزید بڑھ جایا کرتی تھی ۔
"لو سارے کے سارے۔ ۔ تمہیں کیا پتہ؟پیارے لوگوں کیلیے پیارے امرود ہی ہوتے ہیں"یہ کہتے ہوئے اس نے امرود دینے کیلیے ہاتھ آگے بڑھائے۔ امرود لیتے ہوئے اس نے اسکے ہاتھ جو بہانے سے ہاتھوں میں لیے تو ایک ایک کر کے سارے امرود زمین پر گرتے چلے گئے۔ ۔ گلنار ہوتے چہرے کے ساتھ وہ ہاتھ چھڑا کر بچوں کی طرح بھاگ لی اور وہ پیچھے ہی "رک رک" کی رٹ لگاتا ہوا دوڑا ۔ درختوں پر طوطے بے نیازی سے امرود ادھیڑتے رہے۔ ۔
۔ ۔ ۔
طوطے کو پتھر مار کر تھوڑا آگے جو آئی تو جامن کا پیڑ ویسے کا ویسے ہی سر تانے کھڑا تھا۔سامنے ہی پرانا کنواں دیکھ کر اسے یاد آگیا کہ جب عورتیں کنویں سے پانی بھرتیں تو رسی کھنچتے ہوئے کیسے انکی چوٹی بھی دائیں بائیں حرکت کرتی تھی۔ اور پانی بھر کر نازک نازک سی عورتیں جب گھڑا گھما کر اٹھاتیں تو تھوڑا سا پانی چھلک کر آس پاس گر جاتا۔جامن کا تنا اس چھلکتے پانی کی وجہ سے اکثر بھیگا رہتا تھا۔ اسی جگہ اس نے ایک دوپہر دونوں کے نام کے حروف کنندہ کیے تھے.
"پاگل ہو گئی ہو کیا؟ کوئی دیکھ لے گا تو؟ "
" ایویں ہی کوئی دیکھ لے گا۔ ۔ ڈرنا چھوڑ دو۔ جب عورتیں پانی بھریں گی اور چھلک کر پانی یہاں ان حروف پر گرے گا تو ہماری محبت بھی ہمیشہ تروتازہ رہے گی اس گیلے تنے کیطرح"
"اف کہاں سے ڈھونڈ کر لاتی ہو یہ عجیب منطق؟ بھلا محبت کے پیڑوں کو پرائے پانی کی کیا ضرورت ؟ انہیں ہرا رکھنے کیلیے من کا پودا ہرا رکھنا پڑتا ہے۔ ۔ ورنہ دنیا بھر کے سمندر ڈالو بنجر دل بنجر ہی رہتا ہے"
وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے اسے گھورتی ہوئی شہتوت کے پیڑ کی طرف چل دی۔ جہاں اکثر اس کا سہارا لے کر وہ شہتوت توڑا کرتی تھی۔لال لال پکے اور لٹکتے ہوئے شہتوت پر اسکی نظر رہتی اور بل کھاتی ہوئی کمر پر من چلے کی۔
ایک دن شہتوت توڑتے ہوئے اس نے عجیب سا سوال کیا۔
"اگر میں تمہیں نہ ملا تو؟"
ہاتھ آیا شہتوت اچانک چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ اور وہ جلدی سے چھلانگ مار کر نیچے گرتے گرتے بچی۔
"ایسا کیوں کہا؟"
"بس ایسے ہی"
"ایسے ہی کیوں؟"
"کچھ نہیں"
"بتاؤ نا"
"وہ ابا نا میری شادی کی بات کر رہا ہے۔ چچا کی بیٹی سے۔ اسی بہانے زمین کا نسل در نسل جھگڑا بھی ختم ہو جائے گا۔ کتنے خون بہہ چکے اس جھگڑے کے پیچھے"
اسے لگا جیسے سانس پر دباؤ بڑھ سا گیا ہو۔ ۔ ایک ایک سانس اچانک اتنی وزنی سی ہو گئی کہ دل پر بوجھ لگنے گا ۔ ۔ پکے ہوئے لال شہوت اسے خون آشام کن کجھورے لگنے لگے۔
۔ ۔ ۔ ۔
اسکی آنکھوں میں دو آنسو امڈ آئے۔ اپنی بے بسی اور اسکی سفاکی یاد آنے لگی۔ ۔
"تم ابا سے بات کر لو"
"میں ؟ میں لڑکی ہوں۔ میں کیسے بات کروں؟"
"تمہیں شوق تھا نا لڑکا ہونے کا۔ اب پورا کر لو۔جا کر ابا سے کہہ دو کہ میرا رشتہ تم سے کر دیں"
"محبت اور بے غیرتی میں فرق ہوتا ہے۔ اور میرا محبوب مجھ سے محبت کی بھیک منگوانا چاہتا ہے۔ ایسی آزمائش کا کیا مطلب لوں؟"
"جو مرضی مطلب لے۔ مگر میں ابا سے بات نہیں کر سکتا"
وہ منوں محبت کا بوجھ اسکے نازک کاندھوں پر بے رحمی سے ڈال کر چل دیا۔ ۔ اس نے بھاگ کر امرود اٹھایا اور پیچھے سے اسکی کمر پر کس کر دے مارا اور بولی"ہٹ ہرجائی۔ ۔ طوطا چشم کہیں کا"
آنسوؤں کی لڑیاں ۔ ۔ طویل سناٹے میں کوئی چیرا نہ ڈال سکیں۔
۔ ۔ ۔ ۔
باغ میں ٹہلتے ہوئے اسے وہ آخری ملاقات بھی یاد آئی.
"یعنی تم نے فیصلہ کر لیا ہے ۔ میرےبغیر رہ لو گی؟"
جرم کا ہر احساس وہ اس کے سر مونڈھ دینا چاہتاتھا۔
" آج تمہارا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں"
وہ کچھ نہ سمجھا۔ پہلے بھی کب سمجھا تھا اسکی منطق کبھی۔
"تم اگر کہتے نہ کہ میں تمہارے نام کا کلمہ پڑھ لوں تو خدا کی قسم میں خدا سے منکر ہو جاتی۔ ۔۔ انسان انسان سے کتنی محبت کر سکتا ہے۔ اس کا اندازہ ہے مجھے۔ پر اگر تم ٹھوکر نہ مارتے نہ تو مجھے خدا کی کبھی قدر نہ آتی ۔ ۔ تمہیں میں نے خدا کے صدقے معاف کیا مگر میرا سودا گھاٹے کا نہیں رہا۔ تم نے مجھے میرا خدا لوٹا دیا۔ اگر انسان کسی کا خدا بن جانے کی صلاحیت رکھتا نا تو خدا کبھی انسان نہ بناتا۔ اسے اپنا شریک پسند نہیں۔ اسلیے انسان چاہ کر بھی دیوتا نہیں بن سکتا۔ جاؤ تمہیں بھی راس نہیں آیا کسی کا خدا ہونا۔ "
یہ کہہ کر وہ چل دی۔ اور اس بار وہ اسے دور تک جاتے دیکھتا رہا۔
۔ ۔ ۔ ۔
اس کے بعد اس نے چپ طاری کر لی۔ ۔ اور یوں جینے لگی جیسے اس بھری دنیا میں اسکی ننھی سی قیامت کوئی معنی نہ رکھتی ہو۔ اور سچ ہی تو تھا۔ کہاں معنی رکھتی تھی؟ کس کو فرق پڑنا تھا بھلا۔ ۔ فرق تو ذرا برابر اس ہرجائی کو بھی نہ پڑا جس کی خاطر اسکے کنوارے جذبے اب بیوگی کی سی زندگی گزار رہے تھے۔ اب اسے محبت کا ایک ہی مطلب آتا تھا"خدا"۔ ۔ بس خدا ہی وہ محبت یے جو ٹھوکر نہیں مارتا۔ ۔ آج برسوں بعد وہ یہاں لوٹی تھی اپنے گاؤں۔ ۔ ۔ ۔ اپنی مٹی۔ ۔ اپنے خمیر کے پاس۔ ۔اور نہ چاہتے ہوئے بھی باغ سے یادوں کے کانٹے ساتھ ہی چن لائی تھی۔
گاوں واپس آتے ہی خبر ملی تھی چچا رشید کی موت کی۔ اماں نے کہہ دیا تھا کہ افسوس کرنے جانا پڑے گا۔ کیسے کہتی کہ نہیں اماں کہیں بھی لے جا پر ۔ ۔ اس ہرجائی کی گلی نہیں جانا۔ اماں کہاں سمجھ سکتی تھی۔ شام کو زبردستی اسے گھسیٹتے ہوئے چل دیں کہ کتنی بری بات ہے ۔ سب کیا کہیں گے کہ برسوں ساتھ رہے اور افسوس تک نہیں کرنے آئے۔ جوں جوں گھر نزدیک آ رہا تھا اس کی حالت اس بچے کی سی تھی جس نے اپنے امتحان کا نتیجہ وقتی طور پر چھپا دیا ہو اور آج سرعام وہ نتیجہ افشا ہونے جا رہا ہو۔ دیلیز پر قدم رکھتے ہی پہلی نظر اسی پر پڑی۔ ۔ اندر کھڑا کچھ حساب کتاب کر رہا تھا ۔ ۔ ساتھ ہی ایک آٹھ دس سالہ لڑکا کھڑا تھا۔ ۔ بیٹا تھا اسکا شاید۔ ۔ اس کا سانس ہلکے سے ڈولا۔ ۔ مگر ہرجائی کی آنکھوں میں شناسائی کا کوئی ستارہ نہ چمکا۔ ۔ وہ آگے بڑھ کر بولا۔ ۔ آئیے خالہ آئیے ۔ ۔ بیٹھئیے نا۔ ۔ اور اپنے بچے کو دو موڑھے لانے کا کہا۔ لڑکا بھاگ کر موڑھے اٹھا لایا۔ اسکی نگاہیں اور ہاتھ دونوں لرزتے رہے۔ ۔موڑھے پر بیٹھے ہی تھے کہ اسکی بیوی باورچی خانہ سے نکل کر آئی۔ ۔ وہ اپنی بیوی سے بولا "نیک بخت۔ ۔ ۔ خالہ عابدۃ آئی ہیں اپنی بیٹی کےساتھ۔ روٹی پانی کا بندوبست کر دے۔ ۔حمید سے کہہ کر دیسی مرغا ذبح کروا دے"
لڑکا مرغا زبح کروانے کے واسطے اپنے چچا حمید کو مرغا پکڑا کر بھاگ کر انکے پاس آ گیا۔ اماں افسوس کر رہی تھیں اور وہ انکے ساتھ اپنے والد کی تمام پوشیدہ و ظاہری خوبیوں پر یک سوئی سے ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ ایسے میں اسے اماں پر غصہ آ رہا تھا۔ ۔ خواہ مخواہ ہی اسے ساتھ گھسیٹ لائی تھیں۔ کتنا فالتو لگ رہا تھا اسے یہاں بیٹھنا۔ ۔ اس نے اپنی نظریں مرغے کی طرف موڑ دیں اور پھڑپڑاتے ہوئے مرغے کو خالی نظروں سے دیکھنے لگی۔
اچانک اس کے بیٹے نے پوچھا "ابا یہ کون ہیں؟"
ایک سرد لہر اس کے اندر دوڑ گئی۔ ۔یہ سوچ کر کہ اسکا اس سے رشتہ کیا تھا؟
وہی بے نیاز سی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ۔
"بیٹا یہ عابدہ خالہ کی بیٹی ہیں۔ ۔۔سمجھ رشتے میں پھوپی ہیں تیری"
ایک کپکپاہٹ کے ساتھ اسے تڑپتے ہوئے مرغے کی گردن سے فوارے نما اچھلتی خون کی دھار میں اس آخری رشتے کی گونج بھل بھل روح پر بہتی محسوس ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1721200044813362/
“