آج 15 جنوری 1929ء معروف شاعر، مصنف، کالم نگاراورمسلم صوفی حضرت واصف علی واصفؒ کی سالگرہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت واصف علی واصفؒ 15 جنوری 1929ءکو خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد ماجد ملک محمد عارف صاحبؒ کا تعلق وہاں کے قدیم اور معزز اعوان قبیلے کی ایک ممتاز شاخ ”کنڈان “سے تھا۔ مستند تواریخ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اعوان قوم کا سلسلہ ¿ نسب حضرت علی کرّم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔
ابتدائی تعلیم خوشاب میں حاصل کی۔ جون 1939ءمیں گورنمنٹ ہائی سکول خوشاب سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپؒ اپنے نانا کے پاس جھنگ چلے آئے۔ وہ ایک ممتاز ماہرِتعلیم تھے اور جوانی میں قائدِ اعظمؒ کے زیرِ نگرانی امرتسر میں مسلم لیگ کے لیے کام کر چکے تھے۔ آپؒ کے والد صاحب نے فیصلہ کیا کہ بقیہ تعلیم آپؒ کو جھنگ میں دلوائی جائے۔
جھنگ میں دورانِ تعلیم آپؒ کے جوہر خوب کھلے اور ایک شاندار تعلیمی کیرئر کا آغاز ہوا۔
1944 ء میں میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ سے کیا۔ اس وقت بورڈ کی بجائے امتحان پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی۔ آپؒ نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔
اس کے بعدایف اے گورنمنٹ انٹر میڈیٹ کالج جھنگ سے پاس کیا‘ پنجاب یونیورسٹی کے اس امتحان میں بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔
آپؒ نے بی۔اے گورنمنٹ کالج جھنگ سے پاس کیااور اِس مرتبہ بھی فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔
بعدازاں ایم اے انگریزی ادب میں داخلہ لیا۔ اس دوران آپؒ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے اور ہاسٹل میں رہا کرتے تھے۔
آپؒ نہایت خوبصورت تھے ، دراز قد تھے اور ایک مضبوط جسم کے مالک تھے۔ اسکول اور کالج میں ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔
1948ء میں آپؒ کو ہاکی میں حسنِ کارکردگی پر ”کالج کلر“ دیا گیا۔ اس کے علاوہ کالج کی مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اسی کالج کی انہی گوناں گوں سرگرمیوں کی وجہ سے میں آپؒ کو ”ایوارڈ آف آنر“ دیا گیا۔
27 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1954 ﺀﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﻮﻭﯾﺴﭧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﭨﺮﯾﻨﻨﮓ ﮐﺎ ﺍﻋﺰﺍﺯﯼ ﺳﺮﭨﯿﻔﮑﯿﭧ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭨﺮﯾﻨﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﻣﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﺮﺍﮨﺎ ﮔﯿﺎ۔
3 جون 1954 پنجاب گزٹ کے مطابق آپؒ نے سول سروس کا امتحان پاس کیا مگر طبیعت کی انفرادیت اور درویشی کے میلان کی وجہ سے سرکاری نوکری کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔
کچھ ہی عرصہ بعد آپؒ نے ریگل چوک لاہور میں واقع ایک پنجابی کالج میں پرائیویٹ کلاسوں کو پڑھانا شروع کیا۔
بعد ازاں پرانی انار کلی کے پاس نابھہ روڈ پر ”لاہور انگلش کالج“ کے نام سے اپنا تدریسی ادارہ قائم کیا۔۔
ﯾﮧ 1962 ﺀﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ کالج میں باقاعدگی سے لنگر چلتا تھا اور خاص بات یہ تھی کہ طالب علموں کے علاوہ ہر آنے والے کو چائے پیش کی جاتی اور آپؒ اکثر ان کے ساتھ چائے نوشی میں شریک ہو جایا کرتے۔ کالج میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اصحاب کی آمد و رفت رہتی۔ ان میں ادیب‘ شعراء‘ بیوروکریٹ ‘ وکیل ‘ ملنگ ‘ فقرائ‘ درویش اور طالب علم اپنے اپنے ذوق اور طلب کے مطابق فیض یاب ہوا کرتے تھے۔
مختلف اخباروں اور جرائد میں آپؒ کا کلام چھپا کرتا تھا۔ چند اصحاب کے اصرار پر یہ کلام جمع کیا گیا اور عارف نوشاہی سے کتابت کرائی گئی تو آپؒ کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی ۔
مجموعہ کلام کا نام ”شب چراغ“ رکھا گیا۔ اس میں آپؒ کے لاہور انگلش کالج کے زمانے کی ایک نہایت پر شکوہ اور جلال و جمال سے مرقّع فوٹوگراف بھی تھی۔ اس کی تقریبِ رونمائی میں آپؒ کے بہت سے عقیدت مند اور اہلِ علم حضرات شامل ہوئے۔ اس کے بعد رشد و ارشاد کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا۔ یہ دور انتہائی مصروفیت اور محنت کا دور تھا۔ جب لوگوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی تو گفتگو نے ”محفل“کا روپ اختیار کر لیا۔ مختلف مقامات پر محفل جمنے لگی۔ شروع شروع میں محفل کی باقاعدہ شکل لاہور کے مشہور اور مصروف مقام ”لکشمی چوک“ میں بننی شروع ہوئی۔ اس کے بعد قذافی سٹیڈیم میں واقع فزیکل ٹریننگ کے ادارے میں محترم نیازی صاحب مرحوم کے ہاں محفلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں پر ایک ہزار راتیں آپ ؒنے خطاب کیا۔
مختلف موضوعات پرلوگ سوالات کیا کرتے اور آپؒ ان کے جواب دیا کرتے ۔ بعد میں یہ سلسلہ آپؒ کی قیام گاہ ۲۲ فردوس کالونی گلشن راوی پر شروع ہوا۔
آپؒ کو ایم اے او کالج لاہورکی ”مجلسِ اقبالؒ“ کے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیااور ایک محفل وہاں بھی جمی۔ چیدہ چیدہ اہلِ علم اور اہلِ قلم اصحاب نے آپؒ سے مختلف سوالات کیے۔ اس کی روداد روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئی تو قارئین کی اکثریت نے اصرار کیا کہ واصف صاحب ؒ کی تحریر کا کوئی باقاعدہ سلسلہ ہونا چاہیے۔ تب آپؒ نے نوائے وقت کے لیے کالم لکھنا شروع کیا۔ پہلا کالم ”محبت“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ندرتِ کلام اور تاثیر کا یہ عالم تھا کہ لوگوں نے دھڑا دھڑ آپؒ سے رابطہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے دینی‘ دنیاوی اور روحانی مسائل کے حل کے لیے آپؒ کو مستجاب پای
حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک فرمان ہے کہ ”عظیم لوگ بھی مرتے ہیں مگر موت ان کی عظمت میں اضافہ کرتی ہے“
یوں تو آپؒ نے 18 جنوری 1993 کی سہ پہر کو اس دارِ فانی سے آنکھیں موندھ لی تھیں مگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ ؒ کے علم و عرفان کا نور ہر سُو پھیلتا ہی جا رہا ہے اور پھیلتا ہی جائے گایہاں تک کہ آپ کا اصل مقصدِ تخلیق پورا ہو جائے گا یعنی ”استحکام پاکستان اوراسلام کی نشاة ثانیہ“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری
شب چراغ –
پنجابی شاعری
بھرے بھڑولے
تصانیف
قطرہ قطرہ قلزم
حرف حرف حقیقیت
دل دریا سمندر
بات سے بات –
گمنام ادیب –
مکالمہ –
ذکر حبیب –
دریچے –
گفتگو 1 تا 28 –
اقبال کی نظموں کا فنی فکری تجزیہ
شکوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب اقتباسات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنہگار کی پردہ پوشی اسے نیکی ہر لانے کے لیے ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔ بدنامی بعض اوقات مایوس کرکے انسان کو بے حس کر دیتی ہے اور وہ گناہ میں گرتا ہی چلا جاتا ہے۔ عزت نفس ختم ہوجائے تو انسان کے لیے جرم و گناہ بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔
غریبوں کی عزت نفس زندہ کرو۔ کسی کو غنڈہ نہ کہو۔ کہنے سے ہی غنڈہ بنتا ہے۔ پورے نام سے پکارو۔
اولیاء اللہ محبت سے گنہگاروں کی اصلاح کرتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس مجرم کو پکا مجرم بنانے میں ظالم سماج کا ہاتھ نمایاں نظر آئے گا۔ یہ مجرم اور گنہگار ہمارے اپنے سماج کا حصہ ہیں۔ ان کی اصلاح ہوتی تو ان کی تعداد میں اضافہ نہ ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا اصل ساتھی اور آپ کا صحیح تشخص
آپ کے اند ر کا انسان ہے!
اسی نے عبادت کرنی ہے اور اسی نے بغاوت!
وہی دنیا والا بنتا ہے اور وہی آخرت والا!
اسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا اور سزا کا مستحق بنانا ہے
فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!
آپکا باطن ہی آپکا صحیح دوست ہے اور وہی آپ کا بدترین دشمن!
آپ خود ہی اپنے لئے دشوار ی سفر ہو اور خود ہی شادابی منزل !
باطن محفوظ ہو گیا تو ظاہر بھی محفوظ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے جوازتلاش نہیں کیے جاتے صرف زندہ رہا جاتا ہے زندگی گذارتے چلے جاؤ جواز مل جائے گا ۔ اگر آپ کو کسی طرف سے کوئی محبت نہ ملے تو مایوس نہ ہو ، آپ خود ہی کسی سے محبت کرو ۔ کوئی با وفا نہ ملے تو کسی بے وفا سے ہی سہی ۔ محبت کرنے والا زندگی کو جواز عطا فرماتا ہے زندگی نے آپ کو اپنا جواز نہیں دینا بلکہ آپ نے زندگی کو زندہ رہنے کے لیے جواز دینا ہے ۔ آپ کو انسان نظر نہ آئے تو کسی پودے سے پیار کرو۔
اس کی پرورش کرو، اسے آندھیوں سے بچاؤ ، طوفانوں سے بچاؤ، وھوش و طیور سے بچاؤ، تیز دھوپ سے بچاؤ، زیادہ بارشون سے بچاؤ۔ اس کو پالو پروان۔ چڑھاؤ۔ پھل کھانے والے کوئی اور ہوں ، تب بھی فکر کی کوئی بات نہیں ۔ کچھ نہیں تو یہی درخت کسی مسافر کو دو گھڑی سایا ہی عطا کرے گا۔ کچھ نہیں تو اس کی لکڑی کسی غریب کی سردی گذارنے کے کام آئے گی۔ آپ کی محنت کبھی رائیگاں نہیں جائے گی ۔ آپ کو زندہ رہنے کا جواز اور ثواب مل جائے گا ۔اگر آپ کی نگاہ بلند ہونے سے قاصر ہے، تو اپنے پاؤں کے پاس دیکھو۔ کوئی نہ کوئی چیز آپ کی توّجہ کی محتاج ہوگی۔ کچھ نہیں تو محبت کا مارا ہوا کتا ہی آپ کے لیے زندہ رہنے کا جواز مہیا کرے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچے انسان کا جھوٹ مصلحت پر مبنی ہوتا ہے۔
جبکہ جھوٹے انسان کا سچ منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں۔اور اس کا بغور مطالعہ کریں
غور کریں آپ کے بیوی بچے،ماں باپ،بہن بھایئ،عزیزواقارب،
یار دوست،آپ کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں۔لوگ آپ کے سامنے آپ کو کیا کہتے ہیں اور آپ کی عدم موجودگی آپ کا تزکرہ کس انداز میں کرتے ہیں۔کبھی،کبھی خاموشی سے اپنے گھر کے سامنے سے اجنبی ہو کر گزر جاءیں۔اور سوچیں اس گھر میں آپ کب تک ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب یہ گھر تو ہو گا مگر آپ نہیں ہونگے۔
اس وقت اس گھر میں کیا ہو گا آپ کا تزکرہ کس انداز میں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا
طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا
شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا
آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا
جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا
سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا
ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وچ جنگلاں دے سد پئی ماراں
جے آویں میں جندڑی واراں
میں اک کلی پئی کرلاندی
کونجاں چلیاں بنھ قطاراں
تیرے میرے جھگڑے کادھے
تیریاں جتاں میریاں ہاراں
میں چنگے کماں وچ رجھی
آپے ڈھاواں، آپ اساراں
اپنی مت نوں مار کے واصف
ہن میں سب دیاں متاں ماراں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت
پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِتمنا
ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت
دل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئی ہے جو خریدے؟
دیکھوں تو ذرا میں بھی خریدار کی صورت
صورت مری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت
واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﻧﻌﺮۂ ﻣﺴﺘﺎﻧﮧ، ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺧﺊ ﺭِﻧﺪﺍﻧﮧ
ﻣﯿﮟ ﺗﺸﻨﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺅﮞ، ﭘﯽ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﻃﺎﺋﺮِ ﻻﮨُﻮﺗﯽ، ﻣﯿﮟ ﺟﻮﮨﺮِ ﻣﻠﮑُﻮﺗﯽ
ﻧﺎﺳُﻮﺗﯽ ﻧﮯ ﮐﺐ ﻣُﺠﮫ ﮐﻮ، ﺍﺱ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﭽﺎﻧﺎ
ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺯِ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺍﺷﮏِ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﮔﻮﮨﺮِ ﯾﮑﺪﺍﻧﮧ
ﮐﺲ ﯾﺎﺩ ﮐﺎ ﺻﺤﺮﺍ ﮨﻮﮞ، ﮐﺲ ﭼﺸﻢ ﮐﺎ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮞ
ﺧُﻮﺩ ﻃُﻮﺭ ﮐﺎ ﺟﻠﻮﮦ ﮨﻮﮞ، ﮨﮯ ﺷﮑﻞ ﮐﻠﯿﻤﺎﻧﮧ
ﻣﯿﮟ ﺷﻤﻊِ ﻓﺮﻭﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺶِ ﻟﺮﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺯﺵِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝِ ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ
ﻣﯿﮟ ﺣُﺴﻦِ ﻣﺠﺴّﻢ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺴﻮﺋﮯ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﭘُﮭﻮﻝ ﮨﻮﮞ ﺷﺒﻨﻢ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺟﻠﻮۂ ﺟﺎﻧﺎﻧﮧ
ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺻﻒِؔ ﺑﺴﻤﻞ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻧﻖِ ﻣﺤﻔﻞ ﮨﻮﮞ
ﺍِﮎ ﭨُﻮﭨﺎ ﮨﻮﺍ ﺩﻝ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﯾﺮﺍﻧﮧ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الف سے اللہ
ب باسم اللہ
پ سے پایا
اللہ ہی اللہ
ت سے توبہ
استغفر اللہ
ٹ سے ٹوٹا
دشمن اللہ
ث سے ثروت
بخشے اللہ
ج سے جابر
قادر اللہ
چ سے چاہو
مت غیر اللہ
حسے حامد
محمود اللہ
خ سے خیبر
توڑے اللہ
د دما دم
اللہ ہی اللہ
ذ سے ذاکر
ذکر ہے اللہ
ر سے روٹی
بھیجے اللہ
ز سے زاہد
عابد اللہ
س سے سچا
محبوب اللہ
ش سے شامل
کام میںاللہ
ص سے صورت
نہ کوئی اللہ
ضسے ضامن
رزق کا اللہ
ط سے طاقت
والا اللہ
ظ سے ظالم
مارے اللہ
ع سے عالم
ہر شے اللہ
غ سے غافل
دور ہے اللہ
ف سے فاقہ
ٹالے اللہ
ق سے قائم
ہر دم اللہ
ک سے کتنا
اچھا اللہ
گ سے گاو
اللہ ہی اللہ
ل سے لشکر
فاتحاللہ
م سے محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
محبوب اللہ
ن سے نعمت
مالک اللہ
و سے واصف
بندہ ء اللہ
ہ سے ہر دم
حافظ اللہ
ی سے یاور
یا ولی اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود