آج – 11؍نومبر 1886
پیرِ مغاں، خمخانۂ سخن، فخر المتاثّرین، استاد الاساتذہ، اور استاذ الشعراء ” حضرت مولانا ناطقؔ گلاوٹھوی صاحب“ کا یومِ ولادت….
نام مولانا سید ابوالحسن، اور تخلص ناطقؔ تھا۔
11؍نومبر 1886ء کو کامٹی میں پیدا ہوئے جو ناگپور سے 9 میل کے فاصلے پر ایک بڑا قصبہ ہے۔ ان کے والد کاروبار کے سلسلے میں کامٹی میں سکونت پذیر تھے۔ ان کا آبائی وطن گلاوٹھی ضلع میرٹھ ہے ۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند سے علوم عربیہ کی سند حاصل کی۔ طب کی تعلیم بھی حکیم احمد حسن سے حاصل کی۔ انگریزی زبان پرائیوٹ طور پر سیکھی۔ 1900ء میں شاعری شروع کی۔ 1904ء میں داغؔ کی شاگردی اختیار کی۔ داغؔ کے انتقال کے بعد کسی کو کلام نہیں دکھایا۔ اپنے لکھے پر خود ہی اصلاح کرتے رہے۔ داغؔ کی شاگردی سے پہلے بیان یزدانی سے مشورہ سخن کیا۔ عرصہ دراز تک بہ سلسلہ تجارت ناگپور میں مقیم رہے۔ وہ مسلسل 20 سال تک ناگپور میونسپل کمیٹی کے رکن رہے۔ ناطقؔ صاحب کا آخری زمانہ بہت عسرت میں گزرا۔
26؍مئی 1969ء کو ناگپور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’نطق ناطق‘(چند نظموں کا مجموعہ)۔ ان کا دیوان شائع نہیں ہوا۔’کنز المطالب‘(غالب کے دیوان کی شرح)، ان کی کچھ اور تصانیف بھی غیر مطبوعہ رہ گئیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:309
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
🍁 معروف شاعر ناطقؔ گلاوٹھوی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…..🍁
ہچکیوں پر ہو رہا ہے زندگی کا راگ ختم
جھٹکے دے کر تار توڑے جا رہے ہیں ساز کے
——–
ہمارے عیب میں جس سے مدد ملے ہم کو
ہمیں ہے آج کل ایسے کسی ہنر کی تلاش
——–
کس کو مہرباں کہئے کون مہرباں اپنا
وقت کی یہ باتیں ہیں وقت اب کہاں اپنا
——–
اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی
تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا
——–
آئی ہوگی تو موت آئے گی
تم تو جاؤ مرا خدا حافظ
——–
ہمیں کم بخت احساس خودی اس در پہ لے بیٹھا
ہم اٹھ جاتے تو وہ پردہ بھی اٹھ جاتا جو حائل تھا
——–
مے کو مرے سرور سے حاصل سرور تھا
میں تھا نشہ میں چور نشہ مجھ میں چور تھا
——–
تم ایسے اچھے کہ اچھے نہیں کسی کے ساتھ
میں وہ برا کہ کسی کا برا نہیں کرتا
——–
کچھ نہیں اچھا تو دنیا میں برا بھی کچھ نہیں
کیجیے سب کچھ مگر اپنی ضرورت دیکھ کر
——–
ہمیں جو یاد ہے ہم تو اسی سے کام لیتے ہیں
کسی کا نام لینا ہو اسی کا نام لیتے ہیں
——–
ڈھونڈھتی ہے اضطراب شوق کی دنیاگ مجھے
آپ نے محفل سے اٹھوا کر کہاں رکھا مجھے
——–
اب کہاں گفتگو محبت کی
ایسی باتیں ہوئے زمانہ ہوا
——–
رہ کے اچھا بھی کچھ بھلا نہ ہوا
میں برا ہو گیا برا نہ ہوا
——–
تمہاری بات کا اتنا ہے اعتبار ہمیں
کہ ایک بات نہیں اعتبار کے قابل
——–
وفا پر ناز ہم کو ان کو اپنی بے وفائی پر
کوئی منہ آئنہ میں دیکھتا ہے کوئی پانی میں
——–
اب جہاں میں باقی ہے آہ سے نشاں اپنا
اڑ گئے دھوئیں اپنے رہ گیا دھواں اپنا
——–
ظاہر نہ تھا نہیں سہی لیکن ظہور تھا
کچھ کیوں نہ تھا جہان میں کچھ تو ضرور تھا
——–
عمر بھر کا ساتھ مٹی میں ملا
ہم چلے اے جسم بے جاں الودع
——–
ہم پاؤں بھی پڑتے ہیں تو ﷲ رے نخوت
ہوتا ہے یہ ارشاد کہ پڑتے ہیں گلے آپ
——–
مجھ سے ناراض ہیں جو لوگ وہ خوش ہیں ان سے
میں جدا چیز ہوں ناطقؔ مرے اشعار جدا
💠♦️🔹➖➖🎊➖➖🔹♦️💠
🌹 ناطقؔ گلاوٹھوی 🌹
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...