اردو کی نامور افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 4 نومبر 1908ء کوحیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نامور اہل قلم خاتون تھیں۔
حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور مختلف ادبی رسالوں میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ابتدا میں وہ حجاب اسماعیل کے نام سے لکھا کرتی تھیں اور ان کی تحریریں زیادہ تر تہذیب نسواں میں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں ادبی شخصیات سجاد حیدر یلدرم کی معرفت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں۔ شادی کے بعد حجاب مستقلاً لاہور کی شہری بن گئیں اور حجاب اسماعیل سے حجاب امتیاز بن گئیں۔
حجاب امتیاز علی نے بے شمار افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغمات موت، ظالم محبت، وہ بہاریں یہ خزائیں، کالی حویلی اور تحفے کے نام شامل تھے۔ انہوں نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی اور ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی اولین ہوا باز خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
حجاب کے افسانے فنی اور لسانی دونوں اعتبار سے بلند ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں غضب کی دلکشی اور تاثیر ہے۔ ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں، جو ایک کامیاب کہانی کار میں ضروری ہیں۔ حجاب کے افسانوں کا پلاٹ اکہرا، چست، درست، مربوط اور مضبوط ہے۔ برجستگی کا لطف اور زبان کی چاشنی بھرپور ہے۔ حجاب نے اپنی تحریروں سے ادب کو نئی جہت دی۔ ناولوں میں ’اندھیرا خواب‘، ’ظالم محبت‘، ’وہ بہاریں یہ خزائیں‘، ’سیاح عورت‘، افسانوی مجموعے ’میری ناتمام محبت‘، ’ممی خانہ‘، ’تحفے اور شگوفے‘ قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے دیگر تحریریں بھی یاد گار چھوڑی ہیں۔ حجاب کی زندگی بے حد رنگین تھی۔ ان کی شام زیادہ تر پارٹیوں، ادبی محفلوں، سنیما ہال یاریستوراں میں گزرتی تھی۔ انھیں ہوا بازی کے علاوہ کار ڈرائیونگ، پالتو بلیاں، طوطے اور کبوتر پالنا اور ان کے ساتھ کھیلنا بہت پسند تھا۔ باجود ان تمام مصروفیات کے لکھنے اور پڑھنے کا بھی ان کا وقت مقرر تھا۔ تہذیب نسواں‘ کی ادارتی ذمہ داریاں بھی انھوں نے نبھائیں۔ تاج کے ساتھ لاہور کی علمی وادبی فضا میں رہ کر ان کے ادبی ذوق میں مزید نکھار پیدا ہوا۔
قرۃ العین حیدر نے حجاب کے بارے میں لکھا ہے: ’’اردو فکشن میں حجاب امتیاز علی کو وہی اہمیت حاصل تھی، جو فوراً بعد کے دور میں عصمت چغتائی کو ملی اور یہ دونوں خواتین صاحبِ طرز اور منفرد وافسانہ نگار تھیں۔ گو دونوں کے یہاں زندگی کے رویے ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد تھے، ایک کے یہاں موتیا کی ٹہنی پر گانے والی کوئل، کائونٹ لوث اور مادام زبیدہ تھیں، دوسری کے یہاں درانتی اور ہتھوڑا۔ ہندوستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لیے یہ دونوں خواتین دو اہم ادوار کی ترجمانی اور نمائندگی کرتی ہیں اور دونوں کے مطالعہ کے بغیر اردو فکشن کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔‘‘
ایک مستند ومعتبر فنکار کے لیے تمثیل نگاری اور معاشرے کی ترجمانی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک اس کی نظر کائنات سے گہرائی کا مطالعہ نہ کرلے اور اسے سماج کے نشیب وفراز سے پوری آگہی نہ ہو۔ حجاب کا تجربہ ومطالعہ نہایت وسیع ہے، اس لیے وہ منظر نگاری کے دل پذیر ودلکش خاکوں کی سچی تصویر بناتی ہیں اور ایسا حسین کینوس کہ قاری کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ اس نظارہ کو بچشم خود دیکھ کر لطف اندوز ہورہا ہے۔ حجاب کی زندگی کا بڑا حصہ سیر وتفریح میں بیتا ہے، لہٰذا جو کچھ انھوں نے دیکھا، محسوس کیا، ان کو افسانوی رنگ میں پیش کردیا۔ ’میری نا تمام محبت‘ کی یہ عبارت دیکھئے: ’’اب آفتاب غروب ہوگیا تھا۔ باغ کے دریچے سے ہوکر ایک اداس روشنی اندرآرہی تھی، جس کو دیکھ کر میں اکثر اوقات شدتِ رنج سے روپڑتی تھی۔ ایسی اداس روشنیاں دونوں پر اکثر درد ناک اثر کرتی ہیں۔ دسمبر کا درخشاں اور بڑا سا آفتاب سرخ ہوکر دریائے شون کی تلاطم خیز اور گرجنے والی موجوں میں ڈوب رہا تھا،آسمان گہرا سرخ نکل آیا تھا، خنک اور خوشگوار ہوائیں چل رہی تھیں۔‘‘حجاب کی کہانیوں اور ناولوں کے کردار عاشقانہ ورومانی ہونے کے باوجود اخلاقی وتہذیبی روایات کے باغی نہیں ہیں۔ وہ ان لطیف اقدار کو محبوب رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رومانیت کی دھیمی آنچ میں ابھرتے محبت کے جذبات دلوں میں اتر جاتے ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم نے حجاب کے اس پہلو کے بارے میں لکھا ہے:
’’حجاب کے تخیل نے ایک نئی دنیا خلق کی ہے اور اس دنیا میں ایک نئی اور نہایت دلکش مخلوق آباد کی ہے۔ یہ دنیا، جس میں ہم اور آپ رہتے ہیں، اس سے علیحدہ ہے، گو اس سے ملتی جلتی ہے اور جو لوگ اس دنیا میںآباد ہیں، وہ ہم سے مشابہ تو ضرور ہیں، مگر بالکل ہماری طرح نہیں ہیں۔‘‘
محترم ڈاکٹر مجیب احمد خان نے حجاب پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ ان کا مقالہ ’’حجاب امتیاز علی فن وشخصیت‘‘ چھپ چکا ہے۔
ڈاکٹر موصوف ہندو پاک کے غالباً پہلے شخص ہیں، جنھوں نے 1992 ء میں حجاب پر تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ ڈاکٹر مجیب خاں نے حجاب کے فن وفطرت کے بارے میں لکھا ہے:
’’حجاب بلا کی ذہین تھیں۔ ان کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ اور تجربہ بھی بے حد تیز اور گہرا ہے، اس لیے وہ عوامی زندگی کی عکاسی تو کرتی ہیں، مگر انھیں عوامی زندگی سے کوئی خاص واسطہ نہیں ہے۔ اگرچہ انھوں نے بھرپور سماجی زندگی گزاری، مگر ان کے کرداروں میں زندگی کی یہ رمق نظر نہیںآتی۔ ان کے کردار زندگی کے مسئلے کو غور وفکر سے حل کرتے ہیں اور کبھی کبھی جذبات کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ وہ شرافت اور سنجیدگی کا مجسمہ ہوتے ہیں۔ ان کے کردار ہر افسانہ وناول کے جانے پہچانے ہونے کے باوجود تخیلّی، اعلیٰ اور مہذب سوسائٹی کے ہوتے ہیں اور ان میں غیر معمولی خوبیاں ہوتی ہیں۔‘‘
بہر کیف، حجاب اور ان جیسے ادبی معماروں نے اردو زبان وتہذیب کا اتنا وسیع اور حسین تاج محل تعمیر کیا، جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اْردو ادب کو دنیا کی معیاری زبانوں میں شمار کرانے میں ان فنکاروں کا اہم کردار ہے۔ اردو کی خواتین افسانہ اور ناول نگاروں میں حجاب صفِ اول کی فنکار ہیں۔ حجاب نے کہانی کی دلکشی کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کر، ان میں انفرادیت پیدا کردی ہے۔ ان کی تحریروں پر یلدرم کی فکری چھاپ ہے۔ اس بارے میں وہ پہلی اورآخری فکشن نگار ہیں، آخری اس لیے کہ اب قارئین اور مصنفین کی سوچ میں جدت اور افسانوں میں شخص کی پرسنل لائف میں مسائل کا ہجوم ہے۔ اس لیے عصر حاضر میں اب وہی تخلیقات مقبول عام ہوں گی، جن میں موجودہ زندگی کے تمام تر مسائل کا احاطہ ہو۔ حجاب نے ایک دائرہ میں رہ کر اپنی فکر کا اظہار کیا ہے، لہٰذا وہ نسل جدید کو بھرپور زندگی کا پیغام دینے میں ناکام ہیں۔ باوجود اس کے حجاب کی زبان واسلوب نگارش بہت معیاری ہے۔ ان کا یہی وصف ان کے فکر پاروں میں بکھرا ہوا ہے۔ ان کی رومانی تخیل آفرینی سدا قدر کی نظروں سے دیکھی جائے گی۔ اردو ادب میں حجاب کی رومانی افسانہ نگاری نے ایسے گل ہائے رنگا رنگ کھلائے ہیں، جو اپنی مہک اور حسن کے لحاظ سے کبھی نہ مرجھائیں گے۔
آخر میں حجاب کی تحریر کا نمونہ ملاحظہ کیجئے:
’’بلا شبہ کائنات بڑی حسین ہے۔ اسی حسن کی بارگاہ میں تو میری ساری عمر پرستش میں گزر رہی ہے، لیکن ابھی آفتاب ڈوب جائے گا اور کائنات کے سارے رنگ بدل جائیں گے۔‘‘ (پاگل خانہ، ص 321)
19 مارچ 1999ء کو حجاب امتیاز علی لاہور میں وفات پاگئیں۔ وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود