اردو کی ظریفانہ شاعری کے نامور تخلیق کار امیر السلام ہاشمی اردو زبان و ادب کا وہ نیر تاباں جو 9 جولائی 1932کو بدایوں (بھارت )سے طلوع ہوا، پوری دنیامیں سدا بہار مسکراہٹیں ،مسرتیں اور شادمانیاں بکھیرنے کے بعد 18 مارچ 2013کی شام کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گیا ۔
امیر الاسلام ہاشمی کی ظریفانہ شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ ہے جسے پڑھ کر قارئین ادب کی نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں ،چہرے پر تبسم نمودار ہو جاتا ہے اور دل کو سکون کی لا زوال دولت نصیب ہوتی ہے ۔ان کی گل افشانیءگفتار دلوں کو مسخر کر لیتی تھی ،وہ جب بولتے تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے تھے ۔
وہ زندگی کی ناہمواریوں کے ہمدردانہ شعور پر مبنی مزاح کی پھلجھڑیوں سے محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتے تھے ۔ان کا انداز بیاں اس قدر شگفتہ اور پر لطف ہوتا کہ سامعین اس کے سحر میں کھو جاتے اور ان کی طبیعت کبھی سیر نہ ہوتی ۔اردو شاعری میں طنز و مزاح کے دلوں کو موہ لینے والے نغمے الاپ کر خوشیاں بانٹنے والا رباب فرشتہءاجل کے ہاتھوں اس طرح ٹوٹا کہ رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے تمام استعارے ماضی کا حصہ بن گئے ،شگفتہ بیانی کی زندہ روایات اور نادر اسالیب خیال و خواب بن گئے ۔اس وقت ان کے لاکھوں مداح فرط غم سے نڈھال سکتے کے عالم میں ہیں ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ خوشیوں ،راحتوں اور شادمانیوں کے سریلے راگ الاپنے والا یہ رباب اور اس کی دھنوں سے پھوٹنے والے سریلے بول اور سدا بہار گیت تا ابد قارئین ادب کے لیے سرور و کیف اور نشاط قلب و جاں کا وسیلہ ثابت ہوں گے ۔
طنز و ظرافت کے نئے معائر اور متنوع اسالیب اسی رباب کی شیریں دھنوں سے پھوٹیں گے ۔امیر الاسلام ہاشمی کے اسلوب میں ایک دھنک رنگ کیفیت جلوہ گر ہے جس کے پر کشش رنگوں کی بہار قاری کو لازوال مسرت اور نشاط کے سدا بہار احساس سے سر شار کر دیتی ہے ۔اپنی ظریفانہ شاعری میںامیر الاسلام ہاشمی نے اپنے ذوق سلیم کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔سادگی ،سلاست ،خلوص ،دردمندی ،شائستگی اور شگفتگی ان کی ظریفانہ شاعری کے امتیازی اوصاف ہیں ۔ان کے ظریفانہ اسلوب شاعری میںرعایت لفظی ، تضمین ، مبالغہ ، مزاحیہ صور ت واقعہ اور زبان و بیان کی چاشنی کو اس فنی مہارت سے رو بہ عمل لایا گیا ہے کہ اسلوب کی تاثیر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اور قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔
امیرالاسلام ہاشمی کی وفات سے اردو زبان وادب کی ترویج و اشاعت کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
اردو کی ظریفانہ شاعری کو قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے متمتع کرنے والے اس زیرک ،فعال ،مستعد اور مخلص تخلیق کار کی وفات پر دنیا بھر کے علمی و ادبی حلقوں میں صف ماتم بچھ گئی ۔ان کی الم ناک وفات سے اردو شاعری میں طنز و مزاح کا عہدزریں اپنے اختتا م کو پہنچا۔اردو کی ظریفانہ شاعری کا یہ حسین ،پر مسرت اور دلکش باب انھوں نے اپنے خون جگر سے لکھا ۔اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر اپنے جذبات و احساسات کو الفاظ کے قالب میں ڈھالناایک کٹھن مر حلہ ہے ۔یہ مر حلہ انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے طے کیا۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم و ادب کا زندہ دائرةالمعارف تھے۔اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں میں انھیں منفرد اور ممتاز مقام حاصل تھا۔ انھوں نے اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں روایت کو استحکام بخشا جسے اپنے عہد کے اردو کے نامور مزاح نگاروں اور شہرہءآفاق ادیبوں سید ضمیر جعفری ،دلاور فگار ،مجید لاہوری ،خضر تمیمی ،رئیس امروہوی ،شبنم رومانی ،ضیاالحق قاسمی ،مرزا محمود سرحدی ،نذیر احمد شیخ ،نیاز سواتی ،مظفر علی ظفر اور ابن انشا نے پروان چڑھایا۔
امیر الاسلام ہاشمی کی ظریفانہ شاعری کے درج ذیل مجموعے شائع ہوئے :
1۔گر تو برا نہ مانے ،2 ۔وعلیکم السلام ، 3 ۔ضرب ظرافت ، 4 ۔یہ عرض پھر کروں گا ، 5 ۔مجھ کو سمجھے خدا کرے کوئی ۔
امیر الاسلام ہاشمی نے بدایوں (بھارت)سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ۔ایس سی انجینئیرنگ کی ڈگری حا صل کی ۔اس کے بعد انھوں نے ایم ۔ایس سی انجینئیرنگ کی ڈگری حاصل کی ۔قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی پہنچے بعد میں وہ اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے محکمہ مساحت پاکستان میں ملازم ہو گئے ۔وہ 1990تک ملازمت کے سلسلے میں اسلام آباد میں مقیم رہے ۔اس کے بعد انھوں نے مستقل طور پر کراچی میں سکونت اختیار کر لی ۔اسلام آباد سے ان کی زندگی کی حسین یادیں وابستہ تھیں ۔یہاں ان کے حلقہءاحباب میں اس عہد کے نامور ادیب شامل تھے جن میں سید ضمیر جعفری ،کرنل محمد خان ،شفیق الرحمٰن،صدیق سالک ،نذیر احمد شیخ ،بشیر سیفی ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،رحیم بخش شاہین،نظیر صدیقی،ڈاکٹر محمد ریاض ،صابر آفاقی ،صابر کلوروی ،ڈاکٹر محمو دالرحمٰن ،رفعت سلطان اور سید جعفر طاہر کے نام قابل ذکر ہیں ۔
انھوں نے کئی بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی ۔پوری دنیا میں ان کی شگفتہ شاعری کے لاکھوں مداح موجود ہیں ۔ان کی شاعری میں معاشرتی زندگی کی بے ہنگم کیفیات کے بارے میں ایک اصلاحی سوچ کارفرما ہے :
کبھی کی ہو چکی ہوتی ہماری اور اک شادی
اگر اس کا چہیتا اس قدر پاجی نہیں ہوتا
وہ لڑکی اب بھی راضی ہے مگر وہ کیا کرے یارو
کہ اس لڑکی کا جو پوتا ہے وہ راضی نہیں ہوتا
ہمارے معاشرے میں چربہ ساز ،سارق اور کفن دزد متشاعروں نے جو اندھیر مچا رکھا ہے اس کے مسموم اثرات نے رتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں ۔کئی متشاعر اور لفاظ حشرات سخن گلشن ادب کو تارج کر رہے ہیں ۔امیر الاسلام ہاشمی نے اس اعصاب شکن صورت حال اور متشاعروں کے قبیح کردار پر گرفت کی ہے :
میں کہ شاعر نہ سہی صاحب دیوان تو ہوں
پھول اوروں کے سہی ،مالک گل دان تو ہوں
گل ہیں چوری کے ہزاروں مرے گل دانوں میں
کتنے بے نام چھپے ہیں مرے دیوانوں میں
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارا معاشرہ ہوس زر کا اسیر ہو چکا ہے اور بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا ہے ۔علاقائی ،لسانی اور رنگ و نسل کے امتیازات نے ہمارے قومی تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور لوٹ مار نے قومی معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے ۔امیر الاسلام ہاشمی نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر معاشرتی زندگی کے ان مسائل کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے :
جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے
اگتے ہیں تہہ سایہ ءگل خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
طنز و مزاح کے ذریعے زندگی کی نا ہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور کو اجاگر کرنے میں وہ اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لانے اور اس کے فن کارانہ اظہار کی بھر پور کوشش ان کے اسلوب کو ایک شان دل ربائی عطا کرتی ہے ۔
اردو نظم ،غزل اور قطعہ میں ان کی تخلیقی مہارت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کے اسلوب کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر انھوں نے مزاحیہ نظم نگاری پر زیادہ توجہ دی ۔ان کی مزاح نگاری کے جو ہر نظم میں زیادہ کھلتے ہیں ۔خاص طور پر تحریف نگاری میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔
انھوں نے اکبر الہ آبادی ،علامہ اقبال اور اسرار الحق مجاز کی کچھ مشہور نظموں کی بڑی مہارت سے تحریف کی ہے ۔یہ تحریف نگاری زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور قدرت کلام کی مظہر ہے۔امیر الاسلام ہاشمی ایک زندہ دل انسان تھے ۔انھوں نے زندگی بھر حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا ۔انھوں نے مزاح کے تیشہ ءحرف سے مکر اور جبر کی فصیل کو منہدم کرنے اور قارئین ادب میں خوشیاں بانٹنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا رکھا تھا ۔ا نسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ دل و جاں سے عزیز رکھتے تھے ۔وہ سلطانیءجمہور کے پر جوش حامی تھے ۔ظالم کی مذمت کرنا،ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اور بنیادی انسانی حقوق کے لیے ان کی جد وجہد ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔فن مزاح نگاری پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز ، تضادات ، ارتعاشات ،حادثات ،اور مناقشات کو سامنے لانے اور ان پر غور و خوض کے سلسلے میں ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری نے اہم کردار ادا کیا۔وہ دیکھتے بھی تھے اور سوچتے بھی تھے ۔اپنے تمام تجربات ،مشاہدات اور احساسات کو انھوں نے بڑے شگفتہ انداز میں اشعار کے قالب میں ڈھالا۔اپنے اسلوب سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ہیںاور زندگی کے معمولی واقعات بھی ان کی شاعری میں غیر معمولی انداز میں سامنے آتے ہیں۔کوہ سے لے کر کاہ تک کوئی بھی چیز ان کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی ۔
ان کی شگفتہ بیانی کے اعجاز سے قاری کو ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا حوصلہ ملتا ہے ۔ہوائے جو رو ستم میں بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہیں دیتے ۔وہ حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھتے ہوئے وہ تخلیق فن کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔
امیر الاسلام ہاشمی کی شاعری میں طنزو مزاح کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ان کی ظریفانہ شاعری میں طنز و مزاح کو اس طرح شیر و شکر کر دیا گیا ہے کہ قاری کے لیے اس حد فاصل کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے جو طنز اور مزاح کے مابین پائی جاتی ہے ۔اشک آور کیفیت میں بھی وہ تبسم انگیز اسلوب سے سماں باندھ دیتے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ظریفانہ شاعری کے سوتے ان کے دل حزیں سے پھوٹتے ہیں۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے یہ دن دکھائے ہیں کہ خلوص و مروت کو بارہ پتھر کر دیا گیا ہے ۔سادیت پسندی (Sadism)کے مرض میں مبتلا درندوں نے لذت ایذا کو مشغلہ بنا لیا ہے ۔امیر الاسلام ہاشمی کی شاعری میں مزاح میں وہ اپنی خامیوں پر ہنستے ہیں جب کہ طنز میں وہ دوسروں کی کم زوریوں کو ہدف بناتے ہیں :
تکلف بر طرف
پیش لاکٹ کیا تو فرمایا
یہ تو مجھ سے بھی خوب صورت ہے
جب دیا دل تو بولیں رہنے دو
اس تکلف کی کیا ضرورت ہے
پیغام عمل
رات کا وقت ہے اور ہے مسجد بھی قریب
اٹھیے جلدی سے کہ پیغام عمل لایا ہوں
گھر میں فی الحال ہیں جتنے بھی پرانے جوتے
آپ بھی جا کے بدل لیں میں بدل لایا ہوں
منہ میں اب اپنے مسوڑھوں کے سوا کچھ بھی نہیں
پان ہم نے کھائے ہیں اتنی فراوانی کے ساتھ
منہ میں دو بھی دانت ہوتے پھر تو بک سکتے تھے ہم
عید کے موقع پہ یارو کتنی آسانی کے ساتھ
اپنی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں امیر الا سلام ہاشمی نے اپنے عہد کے معاشرتی حالات اور سماجی تضادات اور بے اعتدالیوں کی لفظی مرقع نگاری بڑی خوش اسلوبی سے کی ہے ۔ان کے پر لفط اسلوب شعر میں طنز و مزاح کا حسین امتزاج قاری کو جہان تازہ کی نوید سناتا ہے :
ذرا سی چھیڑ خانی چاہتے ہیں
محبت درمیانی چاہتے ہیں
عزیزان گرامی سے یہ کہہ دو
کہ اب تو مہربانی چاہتے ہیں
اکھاڑے میں چلو اہل زباں کے
لڑائی منہ زبانی چاہتے ہیں
یہ رشوت ہے تو پھر رشوت سمجھ لو
مگر ہم چائے پانی چاہتے ہیں
ہمیں شادی کی کچھ جلدی نہیں ہے
مصیبت نا گہانی چاہتے ہیں
امیر الاسلام ہاشمی کی ظریفانہ شاعری میں جہاں تک مزاح کا تعلق ہے وہ محض تفریح کا پہلو لیے ہوئے ہے اس کے برعکس ان کی طنزیہ شاعری میں اصلاح کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے ۔وہ طنز و مزاح کے امتزاج سے اصلاح و تعمیر کے پہلو تلاش کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔
یہ عرض پھر کروں گا
گھر میں ہوا تھا کیا کیایہ عرض پھر کروں گا
کیا عرض پھر کروں گا یہ عرض پھر کروں گا
لڑکی کلاسیکل تھی لڑکا کلاس کا تھا
اب کس کلاس کا تھا یہ عرض پھر کروں گا
عرق النسا کا نسخہ مہر النسا نے لکھا
نسخے میں کیا لکھا تھا یہ عرض پھر کروں گا
لڑکی نے بھی قبولا لڑکے نے بھی قبولا
دونوں نے کیا قبولا یہ عرض پھر کروں گا
جب تک رہے گا رسہ ،رسہ کشی رہے گی
کب تک رہے گا رسہ یہ عرض پھر کروں گا
رشوت جو روکنا ہے جائز اسے کرا لو
یہ جائزہ ہے کس کا یہ عرض پھر کروں گا
تعویذ تو دیا تھا لڑکے کا پیر جی نے
تعویذ نے دیا کیا یہ عرض پھر کروں گا
اہل نظر کو شک ہے سرمہ نہیں لگاتا
یہ ہاشمی ہے کیسا یہ عرض پھر کروں گا
اپنی طنزیہ نظموں میں امیر الاسلام ہاشمی نے سیاسی اور سماجی زندگی کے تضادات اور مناقشات پر کھل کر لکھا ہے ۔ ان کی نظمیں ”قائد اعظم دیکھا تم نے اپنا پاکستان“اور ”اقبال ترے دیس کا کیا حال سناﺅں “ان کی حب الوطنی ،قومی دردمندی اور خلوص کی مظہر ہیں ۔ان کا اندرونی کرب ان کی طنزیہ شاعری میں نمایا ں ہے ۔ان کی شاعری میں خندہ آور کیفیات ،شگفتہ خیالات اور شستہ اور بر محل پیرایہ ءاظہارکی دلکش کیفیت قاری کے لیے نشاط آور لمحات کی نوید لاتی ہے۔معاشرتی زندگی کے تضادات کو دیکھ کر وہ چپ نہیں رہ سکتے اور اپنے شدید رد عمل کا وہ بر ملا اظہار کرتے ہیں ۔اردو کی ظریفانہ شاعری کے ساتھ ان کا خلوص اور بے تکلفی پر مبنی رویہ جہان تازہ کا نقیب ہے ۔
اک چھوڑو ہو اک اور مسمات کرو ہو
ہر سال یہ کیا قبلہءحاجات کرو ہو
سمجھو ہو کہاں اوروں کو تم اپنے برابر
بس منہ سے مساوات مساوات کرو ہو
کیا حسن کی دولت بھی کبھی بانٹو ہو صاحب
سننے میں یہ آیا ہے کہ خیرات کرو ہو
مل جاﺅں تو کرتے ہو نہ ملنے کی شکایت
گھر آﺅں تو خاطر نہ مدارات کرو ہو
ہم ذات شریف آتے ہیں اس در پہ یہ سن کر
تم ہنس کے شریفوں سے ملاقات کرو ہو
اٹھے کہاں بیٹھے کہاں کب آئے گئے کب
بیگم کی طرح تم بھی حسابات کرو ہو
اللہ تعالیٰ نے امیر الاسلام ہاشمی کو اعلیٰ جمالیاتی حس سے متمتع کیا تھا جس کی عکاسی ان کی شاعری میں بھی ہوتی ہے ۔ان کی شاعری میں حسن بیان کے وسیلے سے جمالیاتی سوز و سرور کے حصول کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ان کا دلکش ،پر لطف اور حسین پیرایہءاظہار قاری کے ذوق سلیم کو صیقل کرتا ہے ۔وہ طنز و مزاح کے وسیلے سے تہذیبی تحفظ کو یقینی بنانے کے آرزو مند تھے ۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیل زماں کے تھپیڑوں میں اقوام و ملل کا جاہ و جلال اور عروج و اقتدار تو خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتا ہے لیکن تہذیبی اقدار پرابلق ایام کے سموں کی گرد نہیں پڑ سکتی ۔ان کی یہ کوشش رہی کہ طنزو مزاح کے ذریعے شگفتہ انداز میں نئی نسل کو تہذیبی میراث کے بارے میں مثبت شعور و آگہی عطا کی جا سکے۔ ان کی شاعری اصلاح اور تعلیم و تربیت کے متعدد نئے امکانات سے لبریز ہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر ہے ۔وہ گہر ے غور و خوض کے بعد اپنی ظریفانہ شاعری کے ذریعے قارئین کے ذہنی شعور کو مثبت انداز میں پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اپنے شگفتہ اسلوب کے وسیلے سے وہ قارئین کو زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ اور بقا کی اہمیت کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
امیرالاسلام ہاشمی نے تخلیق ادب کوایک اہم اور موثر سماجی عمل کی حیثیت سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ۔ان کی ظریفانہ شاعری میں مزاح ایک فطری آہنگ کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے یہ شاعری کئی داخلی اور خارجی حقائق کی آئینہ دار ہے ۔اس کے مطالعے سے تہذیب و معاشرت ،سماجی اور عمرانی حقائق اور علم البشریات کے بارے میں حقیقی صورت حال کا علم ہوتا ہے ۔اس کے وسیلے سے پژ مردگی اور اضمحلال کا خاتمہ ہوتا ہے ۔جب تک دنیا باقی ہے امیر الاسلام ہاشمی کا نام زندہ رہے گا ۔ان کی شاعری خوشیوں اورراحتوں کی نقیب ثابت ہوگی ۔افراد معاشرہ کے رویوں اور خیالات و افکار کی حقیقی تناظر میں تفہیم کے سلسلے میں یہ اہم کلید ثابت ہوگی ۔ بہ ظاہر اپنی ذات کے حصار میں رہنے والے اس گوشہ نشین زیرک تخلیق کار کے افکار و خیالات میں کائنات کی وسعت اور سمندر کی موجوں کی طرح تلاطم موجود ہے ۔ان کی یاد تا ابد دلوں کو مرکز مہر ووفا کرتی رہے گی ۔ان کی شگفتہ یادیں نہاں خانہ ءدل کو معطر کرتی رہیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد فراز مرحوم کی زمین میں محترم امیر الاسلام ہاشمی کی غزل۔۔۔
سنا ہے اسکو بہت سے اچکےدیکھتے ہیں،
سو ہم بھی دامنِ تقویٰ جھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بھڑکتا ہے بات کرنے سے،
سو پیار اس پہ ذرا سا چھڑک کے دیکھتے ہیں،
نظر میں اسکی کھٹکتے ہیں چاہنے والے،
سو اسکی آنکھوں میں ہم بھی کھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اوجِ ثریا پہ ہے دماغ اسکا،
سو آج حوصلے ہم بھی فلک کے دیکھتے ہیں،
کوئی تو بات ہے اسکی غزالی آنکھوں میں،
غزالِ دشت جبھی تو ٹھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو قیامت کی چال چلتا ہے،
تو آؤ چلتے ہیں اسکو لپک کے دیکھتے ہیں،
وہ جب بھی جھوم کے چلتا ہے اسکے پیکر سے،
وہ موج اٹھتی ہے ساغر چھلک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو بدکتا ہے رِیش والوں سے،
جبھی تو شیخ جی اسکو تھپک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے وہ تو سبھی موسموں کی ملکہ ہے،
سو اس سے رنگ ملا کے دھنک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے بھول بھلیاں ہیں اسکی قربت میں،
سو جان بوجھ کے ہم بھی بھٹک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے موڈ میں بارہ بجے وہ آتا ہے،
سو اسکے موڈ سے پہلے کھسک کے دیکھتے ہیں،
وہ گود لیتا ہے یا گود میں وہ لیتا ہے،
سو اسکے سامنے ہم بھی ہمک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکی تو آنکھیں بھی بات کرتی ہیں،
سو بے جھجک بھی اسے کچھ جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے اسکو ہمارا خیال رہتا ہے،
سو ہم خیال کا دامن جھٹک کے دیکھتے ہیں،
یہ بات راز کی ہے راز ہی میں رہنے دیں،
کہ وہ جھجکتا ہے یا ہم جھجک کے دیکھتے ہیں،
سنا ہے حسنِ تکلم پہ ناز ہے ا سکو،
سو اس کے لہجے میں ہم بھی لہک کے دیکھتے ہیں،
الٹ پلٹ کے اسے دیکھنا تو مشکل ہے،
سو آج پیڑ سے الٹا لٹک کے دیکھتے ہیں،
فراز تک تو پہنچنے میں وقت لگتا ہے،
تو پھر نشیب کی جانب لڑھک کے دیکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئیں ہنس بول کے غم اپنے کم تو کریں
مسکراہٹ غم دوراں کو فراہم تو کریں
خیر مقدم کریں ہر غم کا خوشی سے بڑھ کر
زیست کرنے کے لیے کاوش پیہم توکریں
٪
گر یہ معیار ظرافت ہے تو کچھ دن میں امیر
مسخرہ مسند فن پر کوئی بیٹھا ہوگا
اور ہم سا کسی چوپال میں برگد کے تلے
اپنی تخلیق پہ سر پیٹ کے روتا ہوگا
٪
حال کیا میں سناؤںبیوی کا
درد جوڑوں میں اس کے رہتا ہے
درد میرا ہے اس کہانی میں
وہ جو بے درد تھی جوانی میں
٪
مولوی مفتی فقیہہ شہر قاضی اور پیر
لوگ پھنس کے رہ گئے ہیں کتنی دستاروں کے بیچ
٪
حاضرین زار و قطار ہنستے رہے!
وہ خم گرد ن ،وہ دست ناز وہ ان کا سلام
کیا ادائے دلبری ہے تین تلواروں کے بیچ
حسن میں کیا رہ گیا ہے آج میک اپ کے بغیر
کچھ بھیانک سرخیاں جیسے ہوں اخباروں کے بیچ
٪
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بڑھاپے میں بھی ان حسینوں سے اکثر
بہت بات کرنے کو جی چاہتا ہے
مگر جب ہمیں کوئی کہتی ہے انکل
تو ڈوب مرجانے کو جی چاہتا ہے
—–
یوں تو صورت سے نہاہت واجبی سی لگتی ہو تم
اور سانحہ یہ ہے کہ اچھی واقعی لگتی ہو تم
مجھ کو ہے اردو میں ہے شدھ بدھ تم کو میں کیسے پڑھوں
اک حکایت در زباں پہلوی لگتی ہوں تم
——
جو ہوتے پیر تو چھو چھو کے دیکھتے اس کو
اس اس کے بعد دکھانے کو اس پر چھو کرتے
کبھی جو غیر سے وہ گفتگو کرتے
یہ آرزو تھی کہ پیچھے سے جاکے چھو کرتے
جگہ جگہ سے ہے مسکی ہوئی قبائے حیات
ذرا سی جان بھی ہوتی تو ہم رفو کرتے
——-
امیر الاسلام ہاشمی صاحب، راقم کو " اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں" کی ایک کاپی عنایت کی۔
ہاشمی صاحب نے یہ نظم اقبال سے انتہائی معذرت کے ساتھ لکھی تھی لیکن یہ من حیث القوم یہ ہماری موجودہ انفرادی و اجتماعی صورتحال کی عکاس ہے:
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم، کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا
کنجشکِ فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں
مکاری و عیاری و غداری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے
ملتی ہوئی ملا سے ، مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے؟
کردار کا، گفتار کا، اعمال کا مومن
قائل نہیں، ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن، کوئی بنگال کا مومن
ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر آنکھ میں شہتیر
مومن کی نگاہوں سے اب بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں
اب ذوقِ یقیں سے نہیں کٹتی، کوئی زنجیر
دیکھو تو ذرا، محلوں کے پردوں کو اٹھاکر
شمشیر و سِناں رکھی ہیں طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے
تقدیرِ امم سوگئی، طاؤس پہ آکر
مرمر کی سلوں سے کوئی بے زار نہیں ہے
رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کوہر شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے، یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جئے ہے، کبھی جی جی کے مرے ہے
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر، جس کی اذاں سے
اس بندہ مومن کو اب میں لاؤں کہاں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ بیگم ہماری نہ ہم دیکھتے ہیں،
بڑھاپے میں دونوں ہی کم دیکھتے ہیں،
سنا یہ ہے حجرے میں چلتی ہیں چلمیں،
بھرا کیا ہے پی کر چلم دیکھتے ہیں،
یہ سارے ہیں بندر سو بندر بچا کر،
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں،
ستم یہ ہے دونوں ہی اہلِ نظر ہیں،
نہ وہ دیکھتے ہیں، نہ ہم دیکھتے ہیں،
ہم "اہلِ قلم" کی لگائیں گے قلمیں،
قلم میں لگا کر قلم دیکھتے ہیں،
تھا جو کچھ یہاں پر وہ سب کھا چکے ہیں،
چلو اب عراق و عجم دیکھتے ہیں،
قسم جھوٹی کھانے کو دل ہو رہا ہے،
حسینوں کی کھا کر قسم دیکھتے ہیں،
حیا ہو چکی اب نظر تو اٹھاؤ،
ہمیں تم بھی دیکھو کہ ہم دیکھتے ہیں،
اب اہلِ کرم کی یہ حالت ہے یارو،
ہمارا وہ"کریا کرم" دیکھتے ہیں،
اٹھا کر، بٹھا کر ، کلب میں نچا کر،
حیا نازنینوں کی ہم دیکھتے ہیں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہ مجبوری ہر اک رنج و محن لکھنا پڑا مجھ کو،
بنا کر خود کو موضوعِ سخن لکھنا پرا مجھ کو،
وہ بے ہنگم سی کہ جن کو دیکھ کر میں توبہ کرتا تھا،
بہ مجبوری انہیں "توبہ شکن" لکھنا پڑا مجھ کو،
زبانیں جن کی قینچی کی طرح چلتی ہیں شوہر پر،
انہیں شیریں زباں، شیریں دہن لکھنا پڑا مجھ کو،
ہر اک محفل میں جلووں کی جو رشوت پیش کرتی تھیں،
وہ جیسی بھی تھیں "جانِ انجمن"لکھنا پڑا مجھ کو،
مری مجبوریوں نے نازکی کا خون کرڈالا،
ہر اک "گوبھی بدن"کو "گلبدن"لکھنا پڑا مجھ کو،
جب اک "الہڑ" بنی دلہن کسی "بوسیدہ" شوہر کی،
تو اسکے سرخجوڑے کو کفن لکھنا پڑا مجھ کو،
وہ جنکی عمر کی گھڑیاں نہایت سست چلتی ہیں،
سند سے انکی پیدائش کا سِن لکھنا پڑا مجھ کو،
بسا اوقات حرمت بھی قلم کی داؤ پر رکھ دی،
لٹیروں کو "محبانِ وطن" لکھنا پڑا مجھ کو،
حقیقت یہ کہ وہ بچے نہ مجرم تھے نہ قاتل تھے،
تو سب کا قصہِ دار و رسن لکھنا پرا مجھ کو،
بہت مشکل تھا جن کو ڈھونڈنا "میک-اپ کے ملبے"سے،
سو اندازے سے ان کا "بانکپن" لکھنا پڑا مجھ کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہے اچھا اور کیا اچھا نہیں،
میرے کہنے سے تو کچھ ہوتا نہیں،
سچ تو ہے آپ اب کچھ بھی کہیں،
آپ نے سچ تو کبھی بولا نہیں،
اس کی پیشانی پہ سب تحریر تھا،
اس لیے نام و نسب پوچھا نہیں،
شہر میں اب طوطا چشمی عام ہے،
میری مشکل یہ ہے میں طوطا نہیں،
اب تو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں،
رہ گیا دھوکا سو میں دیتا نہیں،
آج کیا سوچوں میں کل کے واسطے،
آج سے آگے کبھی سوچا نہیں،
شاخِ گل پر گلبدن عریاں ہیں کیوں،
کیا درختوں پر کوئی پتّا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں ہوا تھا کیا کیا، یہ عرض پھر کروں گا،
پھر عرض کیا کروں گا، یہ عرض پھر کروں گا،
دو لخت گر نہ ہوتے، پھر کیسے حصہ ملتا،
کس کو ملا تھا حصہ، یہ عرض پھر کروں گا،
جب تک رہے گا رسہ، رسہ کشی رہے گی،
کب تک رہے گا رسہ، یہ عرض پھر کروں گا،
ملا نے کیا کِیا تھا، ملا نے کیا کِیا ہے،
ملا کرے گا کیا کیا، یہ عرض پھر کروں گا،
حجرا پڑا ہے سونا اور پیر جی ہیں غائب،
حجرے میں کیا ہوا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
جتنا نما نما تھا، اتنا وہ خوش نما تھا،
کتنا وہ خوش نما تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
شانے پہ جو پڑا تھا، کہنے کو تھا دوپٹہ،
کتنا سا تھا دوپٹہ، یہ عرض پھر کروں گا،
دونوں تھے روٹھے روٹھے، بیوی میاں ہوں جیسے،
دونوں میں کیا تھا رشتہ، یہ عرض پھر کروں گا،
لڑکی کلاسیکل تھی، لڑکا کلاس کا تھا،
اب کس کلاس کا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
لڑکی نے بھی قبولا، لڑکے نے بھی قبولا،
دونوں نے کیا قبولا، یہ عرض پھر کروں گا،
دولہا دلہن تھے راضی، آیا تھا پھر بھی قاضی،
قاضی نے کیا کِیا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
عِرق النساء کا نسخہ، مہر النساء نے لکھا،
نسخے میں کیا لکھا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
جس میں تھے شعر میرے، غائب ہے وہ لفافہ،
وہ ہے کہاں لفافہ، یہ عرض پھر کروں گا،
غالب کو کیسے کیسے، مغلوب کر رہے ہیں،
نکلے گا کیا نتیجہ، یہ عرض پھر کروں گا،
بے وزن سب تھے مصرعے، شاعر مگر تھا وزنی،
شاعر کا وزن کیا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
رشوت میں جو ملا تھا، یوں ہی سا کچھ ملا تھا،
یونہی سا کیا ملا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
کچھ دے کے کچھ لیا تھا، کچھ لے کے کچھ دیا تھا،
کیا کچھ لیا دیا تھا، یہ عرض پھر کروں گا،
تشویش تو یہی ہے، تشخیص کیسے کی تھی،
لڑکی ہے یا وہ لڑکا، یہ عرض پھر کروں گا،
کچھ عرض کر دیا ہے، کچھ عرض پھر کروں گا،
پھر عرض کیا کروں گا، یہ عرض پھر کروں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود