آج – 24؍اگست 1926
اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد، دانشور اور انگریزی زبان و ادب کے استاد ”پروفیسر جیلانی کامرانؔ صاحب“ کا یومِ ولادت….
پروفیسرجیلانی کامران 24؍اگست 1926ء کو پونچھ، ریاست جموں و کشمیر، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے اور 1957ء میں ایڈنبرگ یونیورسٹی سے ایم اے (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ جیلانی کامران 1957ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بطور انگریزی استاد وابستہ ہوئے۔ اسی کالج میں 1971ء سے 1973ء تک وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔1973ء سے 1975ء تک گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی میں پرنسپل کے عہدے پر فائض رہے۔ 1979ء سے 1989ء تک ایف سی کالج لاہور میں شعبۂ انگریزی کے صدر اور پھر 1999ء میں پروفیسر ایمریطس مقرر ہوئے۔ جیلانی کامران کے شعری مجموعوں میں استانزے، نقش کف پا، چھوٹی بڑی نظمیں اور نظمیں، دستاویز اور جیلانی کامران کی نظمیں اور نثری کتب میں تنقید کا نیا پس منظر، نئی نظم کے تقاضے، غالب کی تنقیدی شخصیت، نظریہ پاکستان کا ادبی و فکری مطالعہ، اقبال اور ہمارا عہد، لاہورکی گواہی، قائد اعظم اور آزادی کی تحریک، ہمارا ادبی و فکری سفر، امیر خسرو کا صوفیانہ مسلک اور ادب کے مخفی اشارے شامل ہیں۔ جیلانی کامران 22؍فروری، 2003ء کو لاہور، پاکستان میں 77 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ وہ اقبال ٹاؤن لاہور میں نشتر بلاک کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
#شعری_مجموعے
ترميم استانزے، نقش کف پا، چھوٹی بڑی نظمیں، اور نظمیں، دستاویز، جیلانی کامران کی نظمیں۔
#نثری_کتب
تنقید کا نیا پس منظر، نئی نظم کے تقاضے، غالب کی تہذیبی شخصیت، نظریہ پاکستان کا ادبی و فکری مطالعہ، اقبال اور ہمارا عہد، لاہورکی گواہی،قائد اعظم اور آزادی کی تحریک،ہمارا ادبی و فکری سفر، ادب کے مخفی اشارے، امیر خسرو کا صوفیانہ مسلک، مغرب کے تنقیدی نظریے،انگریزی زبان و ادب کی تدریس میں قومی زبان کا کردار، قومیت کی تشکیل اور اُردو زبان، زندہ رہنما قائد اعظم وغیرہ۔
#بحوالہ_ویکیپیڈیا
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
معروف شاعر و ادیب پروفیسر جیلانی کامران صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب نظميں بطورِ خراجِ عقیدت…
میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے
کون خفا ہے
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے
➖➖ ➖➖
ترے درختوں کی ٹہنیوں پر بہار اترے
تری گزر گاہیں نیک راہوں کی منزلیں ہوں
مرا زمانہ نئے نئے موسموں کی خوشبو
ترے شب و روز کی مہک ہو
زمین پر جب بھی رات پھیلے
کرن جو ظلمت کو روشنی دے تری کرن ہو
پرندے اڑتے ہوئے پرندے
ہزار سمتوں سے تیرے باغوں میں چہچہائیں
وہ رات جس کی سحر نہیں ہے
وہ تیرے شہروں سے تیرے قصبوں سے دور گزرے
وہ ہاتھ جو عظمتوں کے ہجے مٹا رہا ہے
وہ ہاتھ لوح و قلم کے شجرے سے ٹوٹ جائے
کلس پہ لفظوں کے پھول برسیں
تری فصیلوں کے برج دنیا میں جگمگائیں
اکیلے پن کی سزا میں دن کاٹتے ہزاروں
تری زیارت گہوں کی بخشش سے تازہ دم ہوں
ترے مقدر کی بادشاہت زمیں پہ نکھرے
نئے زمانے کی ابتدا تیرے نام سے ہو
خوشی کے چہرے پہ وصل کا ابر تیر جائے
تمام دنیا میں تذکرے تیرے پھیل جائیں
➖➖ ➖➖
بے ثبات کی دنیا موسموں میں اتری ہے
پھول بن کے آئی ہے
گلشنوں میں اتری ہے
آنسوؤں میں اتری ہے
دل میں کچھ برس جی کر آنگنوں میں اتری ہے
چل دیئے خطا بن کر
عشق کی حکایت کے لوگ بے وفا بن کر
جسم و جاں کے پردے میں قیس کی قبا بن کر
راستے کی مٹی پر عکس ہیں دعاؤں کے
کچھ قدم ہیں غیروں کے کچھ ہیں آشناؤں کے
بارہا گنے ہم نے قافلے جفاؤں کے
عکس بے گناہ ہوں گے
نام بارگاہوں کے کس قلم نے لکھے ہیں مشورے ہواؤں کے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
پروفیسر جیلانی کامران
✍️ انتخاب : شمیم ریاض