ڈاکٹر محمد حنیف فوق اردو کے ممتاز ماہرِ لسانیات، نقاد، محقق، شاعر، سابق مدیر اعلیٰ اردو لغت بورڈ اور سابق پروفیسر و چیئرمین شعبۂ اردو کراچی یونیورسٹی تھے۔
حالات زندگی
ڈاکٹر حنیف فوق 26 دسمبر 1926ء کو بھوپال، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد حنیف تھا۔ انہوں نے بھوپال، کانپور اور لکھنؤ سے تعلیمی مراحل طے کیے۔
1950ء میں وہ ڈھاکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے وابستگی اختیار کرلی اور اس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند کا بھی حاصل کی۔ بعد ازاں وہ کراچی آ گئے اور کراچی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پروفیسر اور بعد ازاں چیئرمین مقرر ہوئے۔ 1981ء میں وہ انقرہ یونیورسٹی ترکی سے بطور وزیٹنگ پروفیسر وابستہ ہوئے جہاں انہوں نے ترکی زبان پر عبور حاصل کیا۔
1995ء سے 1998ء تک وہ اردو لغت بورڈ کے مدیر اعلیٰ رہے۔وہ کچھ عرصے سر سید یونیورسٹی آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی سے بھی وابستہ رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف
مثبت قدریں
چراغِ شناسائی
متوازی نقوش
ترکی زبان اور اتا ترک (اردو تحریروں میں)
غالب(نظر اور نظارہ)
ترقی پسند افسانے
ڈاکٹر حنیف فوق یکم مئی 2009ء کو بھوپال، بھارت میں وفات پا گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونۂ کلام:
جسم و جاں کس غم کا گہوارہ بنے
آگ سے نکلے تو انگارہ بنے
شام کی بھیگی ہوئی پلکوں میں پھر
کوئی آنسو آئے اور تارا بنے
لوحِ دل پہ نقش اب کوئی نہیں
وقت ہے آ جاؤ شہ پارا بنے
اب کسی لمحہ کو منزل مان لیں
در بدر پھرتے ہیں بنجارا بنے
کم ہو گر جھوٹے ستاروں کی نمود
یہ زمین بھی انجمن آرا بنے
جرم نا کردہ گناہی ہے بہت
زندگی ہی کیوں نہ کفارہ بنے
توڑ ڈالیں ہم نظام خستگی
یہ جہاں کہنہ دوبارا بنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد