جمال اور احسان کا مرکب : جمال احسانی
آتا ہے بہت یاد جمال احسانی
تھا خوب بھلا شخص دوبارہ نہ ملا
اپنے نام کی طرح منفرد لب و لہجہ کے شاعر جمال احسانی ان شاعروں میں سے ہیں جو شاید میڈیا پر تو اتنے مشہور نہیں ہوئے مگر اپنی عمدہ شاعری کی بدولت ہمیشہ قارئین کے ذہنوں پر راج کریں گے۔ان کا شعری سفر تین مجموعوں پر مشتمل ہے جبکہ ۲۰۰۸ء میں ان کی کلیات بھی شائع ہو چکی ہے۔ اپنے ان تینوں مجموعوں کی صورت میں انھوں نے اردو شاعری پر ایک پر جمال احسان کیا ہے۔ اسی کا قرض اتارنے کی کوشش یہ ایک چھوٹا سا مضمون ہے۔
جمال احسانی کا آبائی شہر پانی پت تھا جہاں سے ان کے والدین سرگودھا آکر آباد ہوئے۔ اس شہر میں انہوں نے آنکھ کھولی۔ قریب قریب بیس سال سرگودھا رہنے کے بعد یہ خاندان کراچی آکر آباد ہوا اور اپنی وفات تک وہ کراچی میں ہی رہے۔ جمال احسانی تمام عمر معاشی ناہمواری کا شکار رہے جس میں اپنا ذاتی گھر نہ ہونے کا مسئلہ بھی شامل تھا۔ اس تمام جہد کا اثر ان کی ذات پراور شاعری پر بھی نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک اچھی شاعری کے لئے ذاتی تجربات کی بہت اہمیت ہے کیوں کہ جن حالات سے ایک حساس شخص گذرتا ہے وہ اس پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں جو طنز اور جو کاٹ ہے وہ انہی حالات کی دین ہے۔
جمال نے شاعری کیسے شروع کی۔ انھی کی زبانی سنئے:
میں نے شاعری نہ تو پڑھ کر شروع کی اور نہ سن کے۔ یہ دولت تو مجھے بن مانگے ملی ہے۔ یہ خزانہ مجھے کسی نقشے سے نہیں بلکہ لغزش پا سے ملا ہے۔
مزید لکھتے ہیں:
میں نے شاعری اور زندگی کا کوئی بھی اصول نہیں بنایا۔ الغرض میں جو کچھ بھی ہوں اور جیسا بھی، اپنے آپ سے مطمئن ہوں۔ اور اسی نااطمینانی کا ماحصل میری زندگی اور شاعری ہے۔
جمال احسانی کی یہی عاجزی اور یہی سادگی ان کی پوری شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔ مجھے شاعری میں زبردستی ڈالے گئے الفاظ اور تشبیہات سے چڑ ہے۔ اچھی شاعری خودبخود آپ کے دل میں اتر جاتی ہے۔ بس ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ یہ دل سے تخلیق کی گئی ہو۔ جمال کے ذاتی حالات اس کی شاعری پر بالکل اثر پذیر ہوئے ان کی شاعری میں حساسیت، محرومی، پچھتاوے اور تھکن نظر آتی ہے مگر کسی منفی پہلو سے نہیں بلکہ اس پر ہونے والی واردات کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر۔ شاعر ان منفی جذبات کو اپنے اوپر طار ی نہیں کرتا بلکہ ان سے آگے نکل کر وہ ایک امید اور حوصلہ تلاش کرتا ہے۔
جمال احسانی نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی تجربات کو اس طرح ضم کیا کہ اس کی شاعری اس کی زندگی کی کہانی بن کر سامنے آتی ہے۔ ایک عام آدمی معاش کے جن نا ہموار راستوں پر گزرتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اگرچہ اس کا رنگ ان کی شاعری پر بھی چڑھا ، تاہم اپنی شاعری سے جو دھنک رنگ بکھیری اس کی پہلی کرن ہی ان کے تابناک شعری سفر کی پہچان بن گئی۔
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
یہ غم نہیں کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے
یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا
بعد ازاں اس کی شاعری نے قارئین کو ایسا گرفت میں لیا کہ آج بھی شاعر تو بہت ہیں مگر جمال جیسا کو ئی نہیں۔ ان کے ان اشعار کی توصیف تو مشتاق احمد یوسفی اور ساقی فاروقی نے بھی کی، آخری مصرعہ یوسفی نے اپنی کتاب آب گم میں استعمال کیا ہے۔
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
اس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاؤں کی
جمال احسانی کا شعری سفر ان کے مجموعہ کلام ستارہ سفر سے شروع ہوا۔میری ذاتی پسندیدگی سے قطع نظر یہ پورا مجموعہ اردو شاعری میں ایک نہایت معتبر اضافہ تھا۔ ہر غزل، ہر شعر جمال کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ ان کے اس مجموعہ کلام سے جمال کا تابناک شعری مستقبل بھی لوگوں سے چھپا نہ رہا۔ اس وقت کے مشہور اور معروف شعراء کرام جن میں احمد ندیم قاسمی ، پروین شاکر، ساقی فاروقی، ریاض احمد شاد وغیرہ نے تقریب رونمائی میں شرکت کی یا تبصرے کئے۔ جمال احسانی کی ابتدائی تربیت احسان امروہوی جیسے روایتی استاد کے ہاتھوں ہوئی۔ انھیں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے جدید شعراء کا قرب بھی حاصل رہا۔ اس قدیم اور جدید شاعری کے ملاپ سے ان کی شاعری ایک طرف تو روایت کا رنگ لئے ہوئے ہے وہیں اس میں جدیدیت کا تڑکا بھی ہے جو اس شاعری کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ستارہ سفر کے بعد آپ کو دو مزید شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں ایک آپ کی زندگی میں رات کے جاگے ہوئے اور ایک آپ کی وفات کے فورا بعد تارے کو مہتاب کیا شائع ہوا۔ان کی آخری کتاب میں انہوں نے پیش لفظ بھی لکھا اور بارے میں قاری کو روشناس کروایا۔ اسی کتاب کو انہوں نے اپنی شریک حیات کے نام اس شعر کو ساتھ معنون کیا
کوئی طوفان ہو رہتا ہے جمال
ایک دریا کا کنارہ مرے ساتھ
جمال احسانی بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے ۔ اس صنف میں محاورات کی بر جستگی، زبان کی پختگی اور باہمی ربط ان کی غزل کا شعار ہیں۔ جمال کے یہاں ہر جذبہ اپنی پوری شدت سے موجود ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں سمندر، صحرا، سفر، آسمان، تنہائی اور وصل اپنے پورے تاثر کے ساتھ محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ایک بہت بڑے کینسوس پر ان کی شاعری کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ ان کے خوابوں اور امنگوں کی عکاسی کرتی ہے:
سمندروں کا سفر آج تو مزہ دے گا
ہوا بھی تیز ہے کشتی بھی بادبانی ہے
آنکھوں آنکھوں کی ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہو ئے صحراؤں کی!
جمال ہر شہر سے ہے وہ شہر پیارا مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
جمال کی شاعری کی سب سے اہم خصوصیت ریاض احمد شادیوں بیان کرتے ہیں:
جمال کی شاعری میں کھلے مناظر سے محبت اور تنگ ماحول سے نفرت بڑے بلیغ استعاروں کے طور پر ابھری ہے۔اس میں شاعر کی ذاتی واردات سے لے کر ہماری سماجی اور سیاسی زندگی کے سارے روئیے سمٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سارے موضوعات ہماری روایتی شاعری کا بھی حصہ ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ جمال احسانی کے ہاں یہ پہلو کسی روایت کا حصہ نہیں بلکہ شاعر کی ذات بن کرسامنے آتے ہیں۔
گھر بھی عزیز شوق بھی دل میں سفر کا ہے
یہ روگ ایک پل کا نہیں عمر بھر کا ہے
یہ ہجر کون جانے یہ بات کون سمجھے
میں اپنے گھر میں خوش ہوں وہ اپنے گھر میں خوش ہے
نازک اگر نہیں ہے تو شیشہ ہے بے جواز
بھاری اگر نہیں ہے تو پتھر خراب ہے
نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی
اکیلے پن کی بھی ہوتی ہے انتہا کوئی
خموش ہوں تو مجھے کم جواز نہ جان
مرے بیان سے باہر بھی ہیں سبب میرے
منہ اندھیرے نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں
یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں
ہر اسم بے طلسم تھا لیکن جمال میں
تارے کو ماہتاب کیا اس کے نام نے
جمال احسانی نے شاعری میں عام فہم اور بلیغ استعارے استعمال کئے ہیں۔ اس کی شاعری بھی روایتی مصالحہ چیزوں سے پاک ہے جس سے اس کا قد اپنے ہم عصروں بڑھ جاتا ہے کہ جمال کے ہاں اپنے عصرکی شاعری بھی موجود ہے اور اس میں عصر سے آگے بڑھ جانے کا امکان بھی موجود ہے۔اس میں روایت بھی ہے اور جدت بھی۔ اپنے دکھ بھی ہیں اور ان سے نمٹنے کا حوصلہ بھی۔ اپنے دور کے مسائل بھی ہیں اور اس سے قطع نظر ایک امید ایک امنگ بھی ہے۔
اس تاریک فضاء میں میری ساری عمر
دیا جلانے کے امکان میں گزری ہے
کاش میں تجھ پہ ریا ضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں کچھ بھی نہ حاصل آئے
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے آدھی دولت چھاؤں کی
دیے کی لو سے جو تحریر میں نے لکھی تھی
ہوا کے پاس وہ اب تک مری نشانی ہے
اک آدمی کی رہائی سے بھی تو ہو جاتا
جو سارے شہر کی گرفتاریوں کے بعدہوا
جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
چراغ بن کے جلا جس کو واسطے اک عمر
چلا گیا وہ ہوا کے سپرد کر کے مجھے
یہ شہر اپنے حریفوں سے ہارا تھوڑی ہے
یہ بات سب پہ مگر آشکارا تھوڑی ہے
ترا فراق رزق حلال ہے مجھ پر
یہ پھل پر ائے شجر سے اتارا تھوڑی ہے
ٍیہ عام فہم اور دل میں اتر جانے والی شاعری جمال کی پہچان ہے۔سادہ مگر پر اثر یہ ہے وہ شاعری جس سے اردو شاعری کے زندہ رہنے کے امکانات ختم نہیں ہوتے ۔جمال احسانی اتنی خوبصورتی سے شعر بنتے ہیں کہ قاری کا ذہن مسلسل اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ جمال کے ذاتی تجربات ہوں یا محسوسات، زندگی سے شکوہ ہو یا کوئی محرومی ، سب اس طریقے سے اپنی شاعری میں سمو لیتے ہیں کہ قاری ان کے طلسم سے نکل نہیں پاتا۔
کوئی بھی شخص اکیلا نہیں تھا ساحل پر
کسی کو ڈوبنے والا اشارہ کیا کرتا
تو نے احساس ہی نہ ہونے دیا
جو بھی کچھ تھا تری بدولت تھا
دنیا کو بھی کسی طرح نزدیک کر لیا
اور نفس کو بھی مار رہے ہیں کسی طرح
بہت دوسروں کو بہم آیا میں
مگر اپنے حصے میں کم آیا میں
تمام عمر کی جہد مسلسل کے بعد جمال کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ شاید اب وہ زندگی کی ڈور سے نکلنے والا ہے۔ انھوں نے اپنے کئی اشعار میں اس کا ذکر کیا ہے:
نہ کوئی فال نکالی نہ استخارہ کیا
بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارہ کیا
اسٹیشن پر کس کو ڈھونڈ رہے ہو
جمال احسانی تو کب کا جا چکاہے
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خودکو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
اور اتفاقا جو انہوں نے آخری شعر کہے جس میں اس نے دنیا سے رخصت کا اشارہ دے دیا تھا:
تمام اسباب خاک و آب کو اب ڈھونڈنے والا ہے
ترا مہمان چند لمحوں میں رخصت ہونے والا ہے
جمال احسانی کو دنیا کے فانی ہونے کا بھی اندازہ تھا جس کا ادراک وہ ایسے ظاہر کرتے ہیں:
تیرا انجام جو ہوا وہی ہونا تھا جمال
اس جہاں میں تو کسی اور جہاں کا نکلا
بشکریہ: چوہدری لیاقت علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
بہت دنوں سے دکھائی نہیں دیا وہ شخص
یہ تجھ سے پوچھتے ہوں گے تری گلی والے
بس ایک حرفِ متانت سے جل کے راکھ ہوئے
وہ میرے یار مِرے قہقہوں کے متوالے
اگر وہ جان کے درپے ہیں اب تو کیا شکوہ
وہ لوگ تھے بھی بہت میرے چاہنے والے
مقدروں کی لکیروں سے مات کھا ہی گئے
ہم ایک دوسرے کا ہاتھ چومنے والے
اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا
بہت اُداس ہوئے پھول بیچنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونے کی گواہی کے لئے خاک بہت ہے
یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے
اک بھولی ہوئی بات ہے اِک ٹوٹا ہوا خواب
ہم اہلِ محبت کو یہ اِملاک بہت ہے
کچھ دربدری راس بہت آئی ہے مجھ کو
کچھ خانہ خرابوں میں مِری دھاک بہت ہے
پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے
اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ہے
کیا اس سے ملاقات کا اِمکاں بھی نہیں اب
کیوں ان دنوں میلی تری پوشاک بہت ہے
آنکھوں میں ہیں محفوظ ترے عشق کے لمحات
دریا کو خیالِ خس و خاشاک بہت ہے
نادم ہے بہت تو بھی جمالؔ اپنے کئے پر
اور دیکھ لے وہ آنکھ بھی نمناک بہت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی خواب کی اُمید بندھا کرتی ہے
نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
دیکھ بے چارگیء کوئے محبت کوئی دم
سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے
صورتِ دل بڑے شہروں میں رہِ یک طرفہ
جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے
دو اُجالوں کی ملاتی ہوئی اک راہگزر
بے چراغی کے بڑے رنج سہا کرتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود