ملا زمانہ ساز ہے تو پنڈت ہے زر پرست
دونوں کو کچھ غرض نہیں رحمان و رام سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔,
پیدائش: 05 جون 1966ء
وفات: 04 نومبر 2012ء
اشعر ندیمی حیدرآباد کے ایک چھوٹا سے گاؤں رنگاریڈی میں 05 جون 1966ء کو پیدا ہوئے۔ان کے والد مخدوم پٹیل مورثی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اشہر ندیمی انٹرمیڈیٹ کیبعد کمزور مالی حالات کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور حیدرآباد کے مختلف اخبارات میں ملازمت کرنے لگے۔ 1994 میں وہ ممبئی آگئے اور سہہ ماہی رسالہ دفکر و فن میں شرک مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ جن اخبارات و رسائل کے لیے وہ لکھتےرہے، ان کے نام انقلاب، ممبئی، بلٹز ممبئی، بیسویں صدی دہلی، منصف، حیدر آباد، سیاست حیدر آباد، کتاب نما، قابلِ ذکر ہیں۔
شاعری سے شغف بچپن سے ہی تھا۔ خیرات ندیم کے شاگرد ہوئے اوران کے انتقال کے بعد نذیر علی عدیل سے اصلاح لی۔
اشہر ندیمی غزل اور نظم پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔ ان کے اشعار میں زمانے کی ناہمواریوں کا ذکر بھی ہے اور غمِ روزگار کی واردات بھی شدت سے دیکھنے کو ملتی ہے۔
ان کی وفات کے بعدتنظیم ہم ہندستانی، ریاض، نے ان کے کلام کو یکجا کر کے شاہکار کے نام سے شائع کیا۔ تنظیم کے صدر محمود قیصر نے مرحوم کے اس مجموعے کو منظر عام پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
شعر و سخخن کا یہ ستارہ 04 نومبر 2012ء کو اچانک ماہِ کامل بننے سے پہلے ہی غروب ہوگیا۔
اشعار
۔۔۔۔۔
راستہ حیاتِ شوق کا دشوار تو نہیں
یہ انقلابِ وقت کے آثار تو نہیں
کیوں رک رہے ہیں شوق کے رکھتے ہوئے قدم
رستے میں کوئی درد کی دیوار تو نہیں
اشہر جسے اچھال چکے لوگ ملک میں
چنگیزِ عہدِ نو کی وہ دستار تو نہیں
نظریں ملیں تو آنکھوں نے دیکھے ہزار خواب
لاکھوں گمان گزرے تمھارے سلام سے
جن کی رگوں میں خون ہے رشوت کا وہ مجھے
آگاہ کر رہے ہیں حلال و حرام سے
ملا زمانہ ساز ہے پنڈت ہے زرپرست
دونوں کو کچھ غرض نہیں رحمان و رام سے
اب رات ہو چکی ہے اے آوارگی چلوں
آواز دے رہاہے کوئی شام سے مجھے
غزل
۔۔۔۔۔
نئے زمانے کی رفتار دیکھ کر چلیے
مگر ہے راستہ دشوار دیکھ کر چلیے
میں جانتا ہوں کہ یہ شہر ہے مگر پھر بھی
ملیں گے بھیڑئیے خونخوار دیکھ کر چلیے
یہ سر پہ آپ کے اجداد کی امانت ہے
گرے نہ سر سے یہ دستار دیکھ کر چلیے
نہ سر اٹھے ، جو ملے ، سر اٹھانے کی فرصت
کہ سر پہ فرض کا ہے بار دیکھ کر چلیے
کہیں نہ ایسا ہو کچھ دور چل کے پچھتائیں
کہ راستے کو کئی بار دیکھ کر چلیے
پتہ چلے تو سہی ، شہر کے ہیں کیا حالات
چلیں جو گھر سے تو اخبار دیکھ کر چلیے
مجھے خبر ہے یہ دنیا ہے ، پھر بھی آپ اس کو
سمجھ کہ حشر کا بازار دیکھ کر چلیے
سنا ہے راہ میں بوسیدہ اِک حویلی ہے
گرے نہ آپ پہ دیوار دیکھ کر چلیے
اگر ہو آرزو منزل کی آپ کو اشہر
حدِ نگاہ کے اس پار دیکھ کر چلیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلاش و ترسیل : آغا نیاز مگسی