صغیر ملال 15 فروری 1951ء کوراولپنڈی کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔
انہوں نے بہت مختصر مگر بھرپور ادبی زندگی گزاری۔ ان سے ادبی حلقوں کو بہت سی توقعات وابستہ تھیں جو ان کی موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئیں۔
صغیر ملال کے افسانوی مجموعے انگلیوں پر گنتی کا زمانہ، بے کار آمد، ناول آفرینش اور نابود، شعری مجموعہ اختلاف اور دنیا کی منتخب کہانیوں کا مجموعہ بیسویں صدی کے شاہکار افسانے کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔
26 جنوری 1992ء کو صغیر ملال کراچی میں وفات پاگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی انسان کو اپنا نہیں رہنے دیتے
شہر ایسے ہیں کہ تنہا نہیں رہنے دیتے
ان سے بچنا کہ بچھاتے ہیں پناہیں پہلے
پھر یہی لوگ کہیں کا نہیں رہنے دیتے
پہلے دیتے ہیں دلاسہ کہ بہت کچھ ہے یہاں
اور پھر ہاتھ میں کاسہ نہیں رہنے دیتے
کبھی ناکام بھی ہو جاتے ہیں وہ لوگ کہ جو
واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
دائرے چند ہیں گردش میں ازل سے جو یہاں
کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہنے دیتے
جس کو احساس ہو افلاک کی تنہائی کا
دیر تک اس کو اکیلا نہیں رہنے دیتے
زندگی پیاری ہے لوگوں کو اگر اتنی ملال
کیوں مسیحاؤں کو زندہ نہیں رہنے دیتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود سے نکلوں تو الگ سماں ہوتا ہے
اور گہرائی میں اتروں تو دھواں ہوتا ہے
اتنی پیچیدگی نکلی ہے یہاں ہونے میں
اب کوئی چیز نہ ہونے کا گماں ہوتا ہے
اک تسلسل کی روایت ہے ہوا سے منسوب
خاک پر اس امیں ابر رواں ہوتا ہے
سب سوالوں کے جواب ایک سے ہو سکتے ہیں
ہو تو سکتے ہیں مگر ایسا کہاں ہوتا ہے
ساتھ رہ کر بھی یہ اک دوسرے سے ڈرتے ہیں
ایک بستی میں الگ سب کا مکاں ہوتا ہے
کیا عجب راز ہے ہوتا ہے وہ خاموش ملالؔ
جس پہ ہونے کا کوئی راز عیاں ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات اندر اتر کے دیکھا ہے
کتنا حیران کن تماشا ہے
ایک لمحے کو سوچنے والا
ایک عرصے کے بعد بولا ہے
میرے بارے میں جو سنا تو نے
میری باتوں کا ایک حصہ ہے
شہر والوں کو کیا خبر کہ کوئی
کون سے موسموں میں زندہ ہے
جا بسی دور بھائی کی اولاد
اب وہی دوسرا قبیلہ ہے
بانٹ لیں گے نۓ گھروں والے
اس حویلی کا جا اثاثہ ہے
کیوں نہ دنیا میں اپنی ہو وہ مگن
اس نے کب آسمان دیکھا ہے
آخری تجزیہ یہی ہے ملالؔ
آدمی دائروں میں رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود