آج – یکم؍ستمبر 1923
اردو- ہندی کے ڈراما نگار، فلم اداکار، تھیٹر ڈائریکٹر اور ممتاز شاعر ”حبیب تنویرؔ صاحب“ کا یومِ ولادت…..
نام حبیب احمد خان اور تخلص تنویرؔ تھا۔
یکم؍ستمبر 1923ء کو وسطی ہندوستان کے شہر رائے پور میں پیدا ہوئے، اور اپنے کرئیر کا آغاز صحافت سے کیا۔ موسیقی اور شاعری سے بھی شغف رہا۔ حبیب تنویرؔ کی مشہور ترین تخلیقات میں آگرہ بازار 1954ء اور چرنداس چور 1975ء شامل ہیں۔ انہوں نے 1959ء میں نیا تھئیٹر کے نام سے ایک ڈراما کمپنی قائم کی۔ 1972ء میں راجیہ سبھا کے رکن بنائے گئے۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے اعلی اعزازات سے بھی نوازے گئے لیکن شاید انہیں سب سے زیادہ یاد اس لیے کیا جائے گا کہ انہوں نے اپنے ڈراموں میں بڑے ناموں کی بجائے لوک فنکاروں کو استعمال کیا اور ان گلیوں اور بازاروں کو ہی سٹیج بنایا جن کی کہانی وہ بیان کر رہے تھے۔ اس تجربہ کا آغاز آگرہ بازار سے ہوا جو اٹھارویں صدی کے شاعر نذیرؔ اکبر آبادی کی زندگی اور ان ک تخلیقات پر مبنی تھا۔ نذیرؔ اکبر آبادی خود عام لوگوں کے بارے میں انہیں کی زبان میں لکھتے تھے۔ اس ڈرامے کے لیے حبیب تنویرؔ نے روایتی انداز سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دلی کے مقامی لوک فنکاروں اور 'سٹریٹ آرٹسٹس' کو استعمال کیا۔ لیکن ان کے ہدایت کاری کے سفر میں سب سے اہم موڑ 1970ء کے بعد آیا جب انہوں نے آگرہ بازار کو ایک نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنی کمپنی، نیا تھئیٹر کے فنکاروں کو، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق چھتیس گڑھ سے تھا، اپنی مقامی زبان میں مکالمات ادا کرنے کی آزادی دی۔ چرنداس چور حبیب تنویرؔ کا سب سے مقبول ڈراما ثابت ہوا جو تقریباً تین دہائیوں تک ہندوستان اور یورپ میں سٹیج کیا گیا۔
حبیب تنویرؔ 08؍جون 2009ء کو بھوپال میں انتقال کر گئے۔
#بحوالہ_ویکیپیڈیا
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
ممتاز ترین شاعر حبیب تنویرؔ صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..
بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی
زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی
پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال
آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی
زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں
دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی
ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش
دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی
کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار
میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی
➖➖ ➖➖
میں نہیں جا پاؤں گا یارو سوئے گلزار ابھی
دیکھنی ہے آبجوئے زیست کی رفتار ابھی
کر چکا ہوں پار یہ دریا نہ جانے کتنی بار
پار یہ دریا کروں گا اور کتنی بار ابھی
گھوم پھر کر دشت و صحرا پھر وہیں لے آئے پاؤں
دل نہیں ہے شاید اس نظارے سے بے زار ابھی
کاوش پیہم ابھی یہ سلسلہ رکنے نہ پائے
جان ابھی آنکھوں میں ہے اور پاؤں میں رفتار ابھی
اے مرے ارمان دل بس اک ذرا کچھ اور صبر
رات ابھی کٹنے کو ہے ملنے کو بھی ہے یار ابھی
جذبۂ دل دیکھنا بھٹکا نہ دینا راہ سے
منتظر ہوگا مرا بھی خود مرا دل دار ابھی
ہوں گی تو اس رہگزر میں بھی کمیں گاہیں ہزار
پھر بھی یہ بار سفر کیوں ہو مجھے دشوار ابھی
➖➖ ➖➖
خلش و سوز دل فگار ہی دی
دل میں شمشیر آب دار ہی دی
بے وفا سے معاملے کے لیے
اک طبیعت وفا شعار ہی دی
کیفیت دل کی بیان کرنے کو
ایک آواز دل فگار ہی دی
خار کو تو زبان گل بخشی
گل کو لیکن زبان خار ہی دی
دل شب زندہ دار ہم کو دیا
حسن کو چشم پر خمار ہی دی
خود رقیبوں کے واسطے میں نے
زلف معشوق کی سنوار ہی دی
کیا نشیب و فراز تھی تنویرؔ
زندگی آپ نے گزار ہی دی
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
حبیب تنویرؔ
✍️ انتخاب : شمیم ریاض