شیخ ایاز کا اصل نام مبارک علی شیخ تھا وہ دو مارچ 1923 میں شکارپور میں پیدا ہوئے۔
پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔
بھٹو کے دور میں سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر بھی رہے۔
یہ وہی درسگاہ تھی جس کے طلباء ان کی شاعری پر جھوم اٹھتے تھے، اور ایک نیا جذبہ اور ولولہ محسوس کرتے تھے، اور ان کی شاعری ہی ان کی وجہ شہرت بنی۔
ان کی شاعری نے سندھ ادب میں نئے رجحانات متعارف کرائے۔ ان کی کل پچاس کتابیں ہیں ۔ اس کے علاوہ نثر اور ایک نامکمل ناول' کتھے تہ بھجبو تھک مسافر ' ( کہیں تو مسافر سستائے گا)لکھا۔
انہوں نے سندھ کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کی ۔ اردو میں ان کی شاعری کے دو مجموعے ' بوئے گل نالائے دل' اور’’ 'نیل کنٹھ اور نیم کے پتے' شائع ہو چکے ہیں۔
ایاز کو پہلی مرتبہ شہرت برصغیر کی آزادی سے پہلے لکھی گئی نظم ’’گاء انقلاب گاء‘‘ (گاؤ انقلاب گاؤ) پر ملی۔
یہ نظم انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے لکھی تھی۔ اور انقلابی یہ گیت اپنے پروگراموں میں اکثر گایا کرتے تھے۔
ان کی شہرت ان کی کتاب ’’ بھنور بھری آکاس‘‘ کے بعد عروج پر پہنچی۔ جو 1963ء میں شایع ہوئی۔ انہوں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام ’’رسالو شاہ عبداللطیف‘‘ کا اردو میں منظوم ترجمہ کیا۔
ان کا ادبی کریئر چھ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ جس میں انہوں نثر، شاعری اور ڈارمے بھی لکھے۔ ان کے تین اوپیرا ’’بھگت سنگھ اور ان کے ساتھی‘‘،’’ دودو چنیسر‘‘ اور’’ رنی کوٹ جا دھاڑیل‘‘ بہت مشہور ہوئے، جو آج بھی اسٹیج کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ ان کی تحریروں کا بڑا ذخیرہ ہے جو ادبی مضامین، جیل ڈائری، اخباری اداریے، کالم اور ادبی تقاریر پر مشتمل ہے۔
سندھ کے محکمہ ثقافت نے ان کی تصنیفات کو بیس جلدوں میں شایع کیا ہے۔
وہ 28 دسمبر1997 میں انتقال کر گئے انہیں بھٹ شاہ میں کراڑ جھیل کے پاس سپرد خاک کیا گیا۔
ایاز بیسویں صدی کی بڑی آواز ہے۔ جس کی شاعری میں وطنیت، ترقی پسندی اور رومانس کا امتزاج ملتا ہے۔
انہوں نے اپنی شاعری میں انسانی ذات کے دکھوں، مظلوم طبقے کی محرومیوں اور استحصال کے خلاف لکھا۔
ایاز نے شاعری کے ذریعے ایوب کی فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کی۔ ون یونٹ کے خلاف تحریک کے دوران ان کی نظم ’’سندھڑی تے سر کیر نہ ڈیندو‘‘( سندھ پر کون قربان نہیں ہوگا) بہت مقبول ہوئی۔ اور ریڈیو پاکستان پر اس کو نشر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔
انہوں نے خود کو لامذہب صوفی بھی کہا اور سچل سرمست کے لہجے میں ' کافر مومن نہیں ہوں کہا۔
ان کی تین کتابوں ’’کلہے پاتم کینرو‘‘، ’’ بھنور بھری آکاس‘‘ اور ’’کاک ککوریا کاپڑی ‘‘پر بنیاد پرست حلقوں نے سخت تنقید کی اور حکومت نے ان کتابوں پر پابندی عائد کردی۔
ایوب کے دور حکومت میں ان کی شاعری اور باغیانہ خیالات کی وجہ سے انہیں جیل بھیج دیا گیا۔
1965 کی ہندوپاک جنگ کے خلاف لکھاکہ
'سامنے میرا شاعر دوست نارائن شام بیٹھا ہے اس پر میں کیسے بندوق اٹھاؤں، کیسے گولی چلاؤں۔ اس کے اور میرے بول اور فکر ایک جیسی ہے۔'
انہوں نے عالمی ادب کو نچوڑا لیکن اپنی جڑیں موہن جودڑو کی تہذیب میں پختہ رکھیں۔
شیخ ایاز نے صوفیانہ شعور سے اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جس نے سندھ کی سماجی، اخلاقی، ثقافتی سوچ اور سیاسی فکر پر اثرات چھوڑے۔ وہ بھٹائی کی صوفیانہ شاعری کا تسلسل تھے۔ انہیں عظیم انسان دوست اور آرٹسٹ کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ وطنیت، پیار، حسن، صوفی ازم، قربانی اور سچ ان کی شاعری کا محور تھا۔
بھٹائی کی طرح انہوں نے سندھ کے لوک گیتوں کی داستانیں بھی لکھیں۔ تو تھری لوک گیت ’’ ہمرچو‘‘ اور سندھ کے دیگر لوک گیتوں کی طرز پر آج کے دکھوں کو بھی بیان کیا۔
ایاز کی شاعری نے ترقی پسند فکر کے ارتقا اورپھیلاؤ سندھ خواہ پاکستان میں بڑا کردار ادا کیا۔ وہ سندھ کی سیاسی کارکنوں کو متاثر کرتے رہے اور ان کا کنٹری بیوشن ایک انقلابی کا تھا۔
ایاز نے شاعری کے ذریعے نئی فکر کے ساتھ سندھی سماج کو ہلایا جلایا۔
ایاز بڑا شاعر ہے جس کو ابھی پورے طور پر تلاش ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اب تک صرف یہ پتہ ہے کہ وہ دیس کے دکھ اور اس دکھ سے جنم لینے والی قوم پرستی کا شاعر ہے۔لیکن جہاں کہیں بھی انقلاب، تبدیلی، دھرتی پیار محبت کی بات ہوگی وہاں ایاز کی بھی بات ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ: سہیل سانگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیس سو اسی کی دہائی میں کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی کانفرنس کا آغاز انکے اس بلند آہنگ ترانے سے ہوا تھا؛
میرے دیدہ ورو، میرے دانشورو
پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
رود کش نیک و بد کتنے کوتاہ قد
سر میں بادل لیئے ہین تہیہ کئے
بارش زہر کا اک نئے قہر کا
ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائین گے، ڈوب ہی جائیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
پاؤں زخمی سہی ڈگماتے چلو
راہ میں سنگ وآہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
میری دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر کو
نقش کرتے چلو
میرے دیدہ ورو!
میرے وانش ورو!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ غم دنیا کا ہے اس کو نہ دنیا سے کنارا ہے
نہ لینا ہے نہ دینا ہے نہ حیلہ ہے نہ چارا ہے
وہ ایک آزاد انساں ہے جو پابندی کاہے دشمن
نہ ہندو ہے نہ مسلم ہے وہ انساں نت نیارا ہے
یہ اشعار سن کر کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نوآزمودہ کم سن شاعر کے ہوسکتے ہیں لیکن یقین جانیے یہ چودہ سالہ ایازؔ نے کہے تھے۔1938 میں کہی جانے والی اس غزل نما نظم کا عنوان ’’مردِ خدا‘‘ ہے، جو ’’سدرشن‘‘ شکارپور میں شائع ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یاد ہیں وہ زمستاں کی راتیں
ستارے ٹھٹھرتےتھے بام فلک پر
مئے آتشیں جام میں جم گئي تھی
میرے گرم کمرے میں شمع فروزاں
الجھنے لگی موت کی تیرگی سے
انگیٹھی کا ایندھں دھکنے لگا تھا
اچانک ہوادان سے ایک چڑیا
شب تار سے بھاگتی آگئی تھی
ننھی منی سی تھی سراسیمہ سی تھی
گھڑی دو گھڑی گرم و روشن فضا میں
پھڑکتی رھی
پھر اڑی
جب سے میرے لیے ایک تمثیل سی بن گئی ھے
یہ وقفہ یہ عالم سراسیمگی کا
گھڑی دو گھڑی گرمی و روشنی کا
حیات بشر ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’میری روح کی راگنی سن رہے ہو؟
پرانی سی لے ہے پرانے سے نغمے
پرانی سی مے ہے پرانے سے شیشے
جنہیں میں چرا لایا ھوں ساقیان ازل سے
بصد رنج ناصح بصد زعم زاہد
پلاتا رہا ہوں نئے میکشوں کو
جو روح ابد میں تراشے گئے تھے
وہ اصنام لایا ہوں لیکن
کہیں وہ جبینیں نہیں ہیں
کہیں امتیاز پرستش نہیں ہے۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضاؤں میں ہیں جام و مینا کے چرچے
گھٹائوں میں ہیں ابرو باراں کے قصے
اٹھاؤ یہ ساغر اٹھاؤ یہ شیشے
چراغوں میں مئے کو جلاؤ
خرابات کو جگمگاؤ
میں دریائے ماضی میں غوطہ لگاؤں
تمہارے لیے سینہ ھائے صدف سے
گوھر چھین لاؤں
یہ دھرتی کے باسی اچھوتے کنول
جو کہ صدیوں سے مہر و وفا کے فسانے
کہے آرہے ہیں
یہ بھونرے کہ آکاش ہے دیس جن کا
بتاؤ انہیں اشتیاق ملاقات کیوں ہے
سناؤ نہ ہوش وخرد کے فسانے‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود