اردو اور پنجابی کی ممتاز شاعرہ سارہ شگفتہ 31 اکتوبر 1954ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں، وہ پنجابی اور اردو دونوں میں شاعری کرتی تھیں، ان کی شاعری کی مرغوب صنف نثری نظم تھی جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع تھی۔
سارہ شگفتہ کی پنجابی شاعری کے مجموعے بلدے اکھر، میں ننگی چنگی اور لکن میٹی اور اردو شاعری کے مجموعے آنکھیں اور نیند کا رنگ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت پر امرتا پرتیم نے ایک تھی سارہ اور انور سن رائے نے ذلتوں کے اسیر کے نام سے کتابیں تحریر کیں اور پاکستان ٹیلی وژن نے ایک ڈرامہ سیریل پیش کی جس کا نام آسمان تک دیوار تھا۔
4 جون 1984ء کو سارہ شگفتہ نے کراچی میں ریل کے نیچے آکر خودکشی کرلی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بُرا کیتو ای صاحباں ۔۔۔
(اظہار : امرتا پریتم)
صاحباں تُو نے بُرا کیا ۔ ۔ ۔ یہ الفاظ مرزا نے تب کہے تھے، جب اُس کی صاحباں نے اُس کا ترکش اُس سے چُھپا کے پیڑ پر رکھ دیا تھا۔ اور آج تڑپ کر یہی الفاظ میں کہہ رہی ہوں۔ جب سارہ شگفتہ نے اپنی زندگی کا ترکش جانے آسمان کے کس پیڑ پر رکھ دیا ہے اور خود بھی صاحباں کی طرح مَر گئی ہے اور اپنا مرزا بھی مروا دیا ہے ۔ ہر دوست مرزا ہی تو ہوتا ہے ۔۔۔ میں کتنے دنوں سے بھری آنکھوں سے سارہ کی وہ کتاب ہاتھوں میں لئے ہوئے ہوں جو میں نے ہی شایع کی تھی، اور احساس ہوتا ہے کہ سارہ کی نظموں کو چُھو کر کہیں سے میں اس کے بدن کو چُھو سکتی ہوں ۔
کم بخت کہا کرتی تھی، " اے خُدا ! مَیں بہت کڑوی ہوں ، پر تیری شراب ہوں۔۔۔" اور میں اُس کی نظموں کو اور اُس کے خطوط کو پڑھتے پڑھتے خدا کی شراب کا ایک ایک گھونٹ پی رہی ہوں۔۔۔
یہ زمین وہ زمین نہیں تھی جہاں وہ اپنا ایک گھر تعمیر کر لیتی ، اور اسی لئے اُس نے گھر کی جگہ ایک قبر تعمیر کر لی۔ لیکن کہنا چاہتی ہوں کہ سارہ قبر بن سکتی ہے قبر کی خاموشی نہیں بن سکتی ۔ دل والے لوگ جب بھی اس کی قبر کے پاس جائیں گے ۔ اُن کے کانوں میں سارہ کی آواز سنائی دے گی،
"میں تلاوت کے لئے انسانی صحیفہ چاہتی ہوں۔"
وہ تو ضمیر سے زیادہ جاگ چُکی تھی ۔۔۔۔۔
اِس دنیا میں جس کے پاس بھی ضمیر ہے ، اُس کے ضمیر کے کان ضرور ہوں گے ، اور وہ ہمیشہ اُس کی آواز سُن پائیں گے کہ میں تلاوت کے لئے انسانی صحیفہ چاہتی ہوں ۔۔۔ میں نہیں جانتی یہ انسانی صحیفہ کب لکھا جائے گا ، پَر یہ ضرور جانتی ہوں کہ اگر آج کا اتہاس خاموش ہے تو آنے والے کل کا اتہاس ضرور گواہی دے گا کہ انسانی صحیفہ لکھنے کا الہام صرف سارہ کو ہوا تھا ۔۔۔
اتہاس گواہی دے گا کہ سارہ خود اُس انسانی صحیفہ کی پہلی آیت تھی۔۔۔ اور آج دنیا کے ہم سب ادیبوں کے سامنے وہ کُورے کاغذ بچھا گئی ہے کہ جس کے پاس سچ مچ کے قلم ہیں ، اُنہیں انسانی صحیفہ کی اگلی آیتیں لکھنی ہوں گی۔۔۔
اچانک دیکھتی ہوں —- میری کھڑکی پاس کُچھ چڑیاں چہچہا رہی ہیں اور چونک جاتی ہوں۔ ارے ! آج تو سارہ کا جنم دن ہے ۔۔۔ جب اُس سے ملاقات ہوئی تھی تو اپنے جنم دن کی بات کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا —- پنچھیوں کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے ۔۔۔
سارہ ! دیکھ ! امروز نے ہمارے گھر کے آنگن کی سب سے بڑی دیوار پر چڑیوں کے سات گھونسلے بنا دئے ہیں۔۔۔ اور اب وہاں چڑیاں دانا کھانے بھی آتی ہیں اور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے سفید گھونسلوں میں تنکے رکھتی ہوئیں جب وہ چھوٹے چھوٹے پنکھوں سے اُڑتی ، کھیلتی اور چہچہاتی ہیں —- تو کائنات میں یہ آواز گونج جاتی ہے کہ آج سارہ کا جنم دن ہے۔۔۔۔
میں دُنیا والوں کی بات نہیں کرتی ، اُن کے ہاتھوں میں تو جانے کس کس طرح کے ہتھیار رہتے ہیں ۔ میں صرف پنچھیوں کی بات کرتی ہوں ، اور اُن کی جن کے انسانی جسموں میں پنچھی رُوح ہوتی ہے اور جب تک وہ سب اس زمین پر رہیں گے ، سارہ کا جنم دن رہے گا۔۔۔۔
کم بَخت نے خود ہی کہا تھا ، " میں نے پگڈنڈیوں کا پیرہن پہن لیا ہے۔" لیکن اب کس سے پُوچھوں کہ اُس نے یہ پیرہن کیوں بدل لیا ہے ؟ جانتی ہوں کہ زمین کی پگڈنڈیوں کا پیرہن بہت کانٹے دار تھا اور اُس نے آسمان کی پگڈنڈیوں کا پیرہن پہن لیا لیکن ۔۔۔ اور اِس لیکن کے آگے کوئی لفظ نہیں ہے ، صرف آنکھ کے آنسو ہیں ۔۔۔۔
امرتا پریتم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ شگفتہ بزبانِ خود
پہلا حرف
آج سے پانچ برس پہلے کہنے کو ایک شاعر میرے ساتھ فیملی پلاننگ میں سروس کرتا تھا ۔ میں بہت با نماز ہوتی تھی ۔ گھر سے آفس تک کا راستہ بڑی مشکل سے یاد کیا تھا ۔ لکھنے پڑھنے سے بالکل شوق نہیں تھا۔
اتنا ضرور پتہ تھا ۔ شاعر لوگ بڑے ہوتے ہیں ۔
ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔
اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔
ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔
قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ میٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔
باقی جھنپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔
شاعر نے کہا، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔
گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔
روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔
ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی۔
اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔
مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔
تھوڑی دیر کے بع لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔
ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا۔
پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں
اور کفن کمانے چلا گیا۔
بس ! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تنہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا کا ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔
میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔
میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔
تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے۔
اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔
کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی !
فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
راں بو کیا کہتا ہے ؟
سعدی نے کیا کہا ہے ؟
اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔
یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا !
جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو !!!
چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔
میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا !
کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟
میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی ۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔
ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔
آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔
بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔
میں پھر دوہری چیخ ےک ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔
ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔
گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔
کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔
میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میں لکھوں گی، شاعری میں کروں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔
آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔
سارہ شگفتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام:
اُس نے اتنی کتابیں چاٹ ڈالیں
کہ اُس کی عورت کے پیر کاغذ کی طرح ہو گئے
وہ روز کاغذ پہ اپنا چہرہ لکھتا اور گندہ ہوتا
اُس کی عورت جو خاموشی کاڑھے بیٹھی تھی
کاغذوں کے بھونکنے پر سارتر کے پاس گئی
تم راں بو اور فرائیڈ سے بھی مِل آئے ہو کیا
سیفو ! میری سیفو ! مِیرا بائی کی طرح مت بولو
میں سمجھ گئی ، اب اُس کی آنکھیں
کیٹس کی آنکھیں ہوئی جاتی ہیں
میں جو سوہنی کا گھڑا اُٹھائے ہوئے تھی
اپنا نام لیلیٰ بتا چکی تھی
مَیں نے کہا
لیلیٰ مجمع کی باتیں میرے سامنے مت دُہرایا کرو
تنہائی بھی کوئی چیز ہوتی ہے
شیکسپیئر کے ڈراموں سے چُن چُن کر اُس نے ٹھمکے لگائے
مجھے تنہا دیکھ کر
سارتر فرائیڈ کے کمرے میں چلا گیا
وہ اپنی تھیوری سے گِر گِر پڑتا
مَیں سمجھ گئی اُس کی کتاب کتنی ہے
لیکن بہر حال سارتر تھا
اور کل کو مجمع میں بھی ملنا تھا
میں نے بھیڑ کی طرف اشارہ کیا تو بولا !
اتنے سارے سارتروں سے مِل کر تمہیں کیا کرنا ہے
اگر زیادہ ضد کرتی ہو تو اپنے وارث شاہ ،
ہیر سیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیں
سارتر سے استعارہ ملتے ہی
میں نے ایک تنقیدی نشست رکھی
میں نے آدھا کمرہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا
سو پہلے آدھے فرائیڈ کو بُلایا
پھر آدھے راں بو کو بُلایا
آدھی آدھی بات پُوچھنی شروع کی
جان ڈن کیا کر رہا ہے
سیکنڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے
چوروں سے سخت نالاں ہے
دانتے اس وقت کہاں ہے
وہ جہنم سے بھی فرار ہو چکا ہے
اُس کو شُبہ تھا
وہ خوجہ سراؤں سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکتا
اپنے پس منظر میں
ایک کُتا مُسلسل بھونکنے کے لئے چھوڑ گیا ہے
اُس کُتے کی خصلت کیا ہے ؟
بیاترچے کی یاد میں بھونک رہا ہے
تمہارا تصور کیا کہتا ہے ؟
سارتروں کے تصور کے لحاظ سے
اب اُس کا رُخ گوئٹے کے گھر کی طرف ہو گیا ہے
باقی آدھے کمرے میں کیا ہو رہا ہے
لڑکیاں
کیا حرف چُن رہی ہیں
استعارے کے لحاظ سے
حرام کے بچے گِن رہی ہیں
لڑکیوں کے نام قافیے کی وجہ سے
سارتر زیادہ نہیں رکھ پا رہا ہے
اِس لئے اُن کی غزل چھوٹی پڑ رہی ہے
زمین کے لحاظ سے نقاد
اپنے کمروں سے اُکھڑنے کے لئے تیار نہیں
لیکن انھوں نے وعدہ کیا ہے
سارے تھنکر اکٹھے ہوں گے
اور بتائیں گے کہ سُوسائٹی کیا ہے
اور کیوں ہے ۔۔۔۔
ویسے ہواؤں کا کام ہے چلتے پھرتے رہنا
دُور اندیش کی آنکھ کیسی ہے
سگریٹ کے کش سے بڑی ہے
وہ گھڑے سے پتھر نکال کر گِن رہے تھے
اور کہہ رہے تھے مَیں اس گھڑے کا بانی ہوں
چائے کے ساتھ غیبت کے کیک
ضروری ہوتے ہیں
اور چُغل خوری کی کتاب کا دیباچہ
ہر شخص لکھتا ہے
زبانوں میں بُجھے تیروں سے مقتول زندہ ہو رہے ہیں
بڑا ابلاغ ہے
سُوسائٹی کے چہرے پہ وہ زباں چلتی ہے
کہ ایک ایک بندے کے پاس
کتابوں کی ریاست بندے سے زیادہ ہے
ریاست میں !
مہارانیوں کے قصے گھڑنے پر
عِلم کی بڑی ٹپ ملتی ہے
بِل کے سادہ کاغذ پر
عِلم لکھ دیا جاتا ہے
تازہ دریافت پر
ہر فرد کی مٹھی گرم ہوتی ہے
پہلے یہ بتاؤ ، جھُنجھنے کی تاریخِ پیدائش کیا ہے
میں کوئی نقاد ہوں جو تاریخ دُہراتا پھِروں
کسی کا کلام پڑھ لو
تاریخ معلوم ہو جائے گی
تمہاری آنکھوں میں آنسو
میری کتاب کا دیباچہ لکھنا ہے
یہ کس کی پٹی ہے
نقاد بھائی کی
یہ کس کی آنکھ ہے
مجھے تو سیفو بھابھی کی معلوم ہو رہی ہے
اور یہ ہاتھ !
غالب کا لگتا ہے !
بَکتے ہو !
زر کی امان پاؤں تو بتاؤں
جتنے نام یاد تھے بتا دیئے
لیکن تمہارا تصور کیا کہتا !
میں دُم ہلانے کے سِوا کیا کر سکتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیلی بیٹی
تُجھے جب بھی کوئی دُکھ دے
اُس دُکھ کا نام بیٹی رکھنا
جب میرے سفید بال
تیرے گالوں پہ آن ہنسیں ، رو لینا
میرے خواب کے دُکھ پہ سو لینا
جن کھیتوں کو ابھی اُگنا ہے
اُن کھیتوں میں
میں دیکھتی ہوں تیری انگیا بھی
بس پہلی بار ڈری بیٹی
مَیں کتنی بار ڈری بیٹی
ابھی پیڑوں میں چُھپے تیرے کماں ہیں بیٹی
میرا جنم تُو ہے بیٹی
اور تیرا جنم تیری بیٹی
تُجھے نہلانے کی خواہش میں
میری پوریں خُون تُھوکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے میرے سر سبز خُدا
بین کرنے والوں نے
مجھے اَدھ کُھلے ہاتھ سے قبول کیا
انسان کے دو جنم ہیں
پھر شام کا مقصد کیا ہے
میں اپنی نگرانی میں رہی اور کم ہوتی چلی گئی
کتوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بُھول گئے
مَیں ثابت قدم ہی ٹُوٹی تھی
اب تیرے بوجھ سے دھنس رہی ہوں
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اے میرے سرسبز خُدا
خزاں کے موسم میں بھی مَیں نے تجھے یاد کیا
قاتل کی سزا مقتول نہیں
غیب کی جنگلی بیل کو گھر تک کیسے لاؤں
پھر آنکھوں کے ٹاٹ پہ مَیں نے لکھا
میں آنکھوں سے مرتی
تو قدموں سے زندہ ہو جاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنگِ میل پہروں چلتا ہے
آسمان کے سینے میں غم چرخا کات رہا ہے
سنگِ میل
پہروں چلتا ہے اور ساکت ہے
رات مُجھ سے پہلے جاگ گئی ہے
لباس پر پڑے ہوئے دھبے
میرے بچوں کے دُکھ تھے
میرے لہو کو تنہائیاں چاٹ رہی ہیں
شہر کی منڈیر سے تنکے چُرائے تھے
سُورج نے دُکھ بنا دئے
میرے سپنوں کا داغ آنکھیں ہیں
میری قبر مُجھے چُھپ کر دیکھ رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کا قرض
ہمارے آنسوؤں کی آنکھیں بنائی گئیں
ہم نے اپنے اپنے تلاطم سے رسہ کشی کی
اور اپنا اپنا بین ہوئے
ستاروں کی پُکار آسمان سے زیادہ زمین سُنتی ہے
میں نے موت کے بال کھولے
اور جُھوٹ پہ دراز ہوئی
نیند آنکھوں کے کنچے کھیلتی رہی
شام دوغلے رنگ سہتی رہی
آسمانوں پہ میرا چاند قرض ہے
میں موت کے ہاتھوں میں ایک چراغ ہوں
جنم کے پہیے پر موت کی رتھ دیکھ رہی ہوں
زمینوں میں میرا انسان دفن ہے
سجدوں سے سر اُٹھا لو
موت میری گود میں ایک بچہ چھوڑ گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود