آج – 24؍اپریل 1971
اردو اور ہندی زبان کے معروف شاعر” منیش شکلا “ کا جنم دن…
منیش شکلا، 24؍اپریل 1971ء کو سیتا پور میں پیدا ہوئے۔ منیش شکلا اعلی تعلیم کے لئے لکھنؤ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویٹ کیا۔وہ ریاست عالیہ اترپردیش ، ریاست میں ایک ریاستی سول سروس افسر ہے اور اس وقت انشورنس آف انتظامیہ اور انتظامیہ کے ڈائریکٹر ، اترپردیش ہندی ادارہ لکھنؤ، اردو اکیڈمی اترپردیش ایوارڈ سمیت متعدد پُر وقار ایوارڈز اور ان کی ادبی شراکت کے لئے یوپی ریاست کی ادبی کونسل کا "فراق گورکھپوری" ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اردو ادب میں ان کی اردو کی غزلوں کا پہلا مجموعہ” خواب پتھر ہو گئے ہیں “ 2012 میں شائع ہوا تھا۔منیش شکلا کو: یوا رتن سمان 2012 ، ثاقب ایوارڈ 2014 ، نسیم احمد صدیقی ایوارڈ 2015 ، مرحوم ڈیویل مشرا سمرتی سمن ، 2016 ، سری جن سمن 2016 اتر پردیش سے نوازا گیا ہے۔ پریس کلب اور روٹری ایکسی لینس ایوارڈ 2016۔ منیش شکلا پچھلے 15 سالوں سے پورے ہندوستان اور بین الاقوامی مشاعرہ میں باقاعدگی سے حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی شاعری کی تلاوت باقاعدگی سے آل انڈیا ریڈیو اور مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے نشر کی جارہی ہے۔ ان کی غزلوں کو پوری دنیا میں تمام نامور ہندی اور اردو رسالوں اور نیوز پیپرز کے ذریعہ شائع کیا جارہا ہے۔ وہ 2013 سے نئی دہلی ، ممبئی ، لکھنؤ اور رائےبریلی میں منعقدہ جش ادیب بین الاقوامی شاعری کے میلے میں مسلسل حصہ لے رہے ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
══━━━━✥•••◈•••✥━━━━══
معروف شاعر منیش شکلا کے جنم دن پر منتخب اشعار بطور خراجِ تحسین…
بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا
—
مری آوارگی ہی میرے ہونے کی علامت ہے
مجھے پھر اس سفر کے بعد بھی کوئی سفر دینا
—
ہم چراغوں کی مدد کرتے رہے
اور ادھر سورج بجھا ڈالا گیا
—
سنا ہے رات پورے چاند کی ہے
سمندر شام سے بہکا ہوا ہے
—
کسی کے عشق میں برباد ہونا
ہمیں آیا نہیں فرہاد ہونا
—
میں تھا جب کارواں کے ساتھ تو گل زار تھی دنیا
مگر تنہا ہوا تو ہر طرف صحرا ہی صحرا تھا
—
کتنے لوگوں سے ملنا جلنا تھا
خود سے ملنا بھی اب محال ہوا
—
بتاؤں کیا تمہیں حاصل سفر کا
ادھوری داستاں ہے اور میں ہوں
—
کاغذوں پر مفلسی کے مورچے سر ہو گئے
اور کہنے کے لئے حالات بہتر ہو گئے
—
کوئی تعمیر کی صورت تو نکلے
ہمیں منظور ہے بنیاد ہونا
—
اڑانوں نے کیا تھا اس قدر مایوس ان کو
تھکے ہارے پرندے جال میں خود پھنس رہے تھے
—
اول آخر ہی جب نہیں بس میں
کیا کریں درمیان کی باتیں
—
آخر ہم کو بے زاری تک لے آئی
ہر شے پر گرویدہ رہنے کی عادت
—
چند لکیریں تو اس درجہ گہری تھیں
دیکھنے والا ڈوب گیا تصویروں میں
—
ہم نے تو پاس ادب میں بندہ پرور کہہ دیا
اور وہ سمجھے کہ سچ میں بندہ پرور ہو گئے
—
دل کا سارا درد بھرا تصویروں میں
ایک مصور نقش ہوا تصویروں میں
—
تو مجھ کو سن رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا
یہ کچھ الزام ہیں میرے صفائی کیوں نہیں دیتا
—
کسی بھی شے پہ آ جانے میں کتنی دیر لگتی ہے
مگر پھر دل کو سلجھانے میں کتنی دیر لگتی ہے
—
دل بے رحم کی خاطر مدعا کچھ بھی نہیں ہوتا
عجب حالت ہے اب شکوہ گلا کچھ بھی نہیں ہوتا
—
آخری کوشش بھی کر کے دیکھتے
پھر اسی در سے گزر کے دیکھتے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
منیش شکلا
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ