آج ۔ 18؍مئی 1989
سرزمین بنارس کی شان اردو اور فارسی کے ادیب، محقق، ناقد، مصنف، مؤلف، مورخ، اور شاعر ”پروفيسر امرت لعل عشرتؔ صاحب“ کی برسی……
نام امرت لعل مدھوک اور تخلص عشرتؔ تھا۔ ان کی پیدائش لاہور کے محلہ دیوان اسٹریٹ میں 02؍نومبر 1930ء کو ہوئی۔ ان کے آبا و اجداد کو شعر و شاعری اور نغمہ و موسیقی سے خاص لگاؤ تھا۔ ان کے والد گوردھن لعل مدھوک لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کرتے تھے انہیں نغمہ و موسیقی اور اسٹیج پروگرام کرنے کا بے حد شوق تھا۔ تقسیم ہند کے بعد عشرتؔ صاحب کا خاندان شملہ میں آ کر بس گیا۔ عشرتؔ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق اور نغمہ و موسیقی کا ذوق بچپن ہی سے تھا۔ ہر طرح کے ساز کو بخوبی بجاتے تھے۔ ان کا ترنم شیریں اور دلکش تھا انہوں نے فارسی، اردو اور تاریخ تینوں مضامین میں ایم اے کیا تھا تھا۔ حکومت ہند کی طرف سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہیں ایران جانے کا موقع بھی ملا۔ جہاں انہوں نے تہران یونیورسٹی سے ”شعر فارسی درہنداز میانہء قرن پنجم تا آغاز قرن ہشتم“ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر فارسی میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بنارس ہندو یونیورسٹی نے ان کے مقالے ”پنجاب میں اردو شاعری کا ارتقا (1947 تک)“ پر اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ ایران سے لوٹنے کے بعد انھوں نے درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور فارسی و اردو کے استاد کی حیثیت سے مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دیں۔ 1964ء میں وہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو، فارسی اور عربی کے مشترکہ شعبہ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ شعبوں کی علیحدگی ہونے پر انہوں نے شعبہء فارسی میں جانے کا فیصلہ کیا۔ عمر آخر تک وہ شعبہء فارسی کے پروفیسر اور صدر شعبہ کے عہدے پر فائز رہے، اور دوران ملازمت 18؍مئی 1989ء کو بنارس میں انتقال کر گئے۔ عشرت صاحب بیک وقت محقق، ناقد، مصنف، مؤلف، شاعر، مورخ اور موسیقار تھے۔
#بحوالہ_یادگارِ_عشرتؔ
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
معروف شاعر ڈاکٹر امرت لعل عشرتؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
مری تسبیح کے دانے ہیں یہ سارے حسین چہرے
نگاہیں اٹھتی جاتی ہیں عبادت ہوتی جاتی ہے
—–
میرا دل ہر نئے غم کے لئے آنکھیں بچھاتا ہے
کہ گھر آئے ہوئے مہماں کو لوٹایا نہیں کرتے
—–
وقت کا روپ کچھ اس طرح نکھارا جائے
غم کی گھڑیوں کو بھی ہنس ہنس کے گزارا جائے
—–
ہم نے اپنے دوست کی خاطر دشمن سے بھی پیار کیا
اپنا مسلک پھول سے پہلے کانٹوں کی رکھوالی ہے
—–
دوستو فرصت ہستی کو غنیمت جانو
بات کی بات میں اک عمر بسر ہوتی ہے
—–
جب ہندو و مسلم میں کوئی فرق نہیں ہے
مذہب کی یہ دیوار گرا کیوں نہیں دیتے؟
—–
غالب و میر کی میراث ہے اردو عشرتؔ
ہند ٹھکرائے اسے ہم اسے اپنائیں گے
—–
ہمارے بعد اس محفل میں افسانے بیاں ہوں گے
بہاریں ہم کو ڈھونڈیں گی نہ جانے ہم کہاں ہوں گے
—–
یہ تیرا حسن کلام عشرتؔ! جو اس ادا سے نکھر گیا
نہیں ہے تیرا کمال اس میں جمال ہے تیرے ہم نشیں کا
—–
میخانے کی توقیر جو منظور ہے ساقی
نااہل کے ہاتھوں میں کبھی جام نہ دینا
—–
اس خطے میں پہلی سی تب و تاب نہیں ہے
دو آب ہے سہ آب ہے پنجاب نہیں ہے
—–
کب تک آخر یہ پری رو ہمیں ٹھکرائیں گے
گرد بن کے کسی آنچل سے لپٹ جائیں گے
—–
دل کو ترے وعدوں کی صداقت کا یقین ہے
تو بھول بھی جائے تو کوئی بات نہیں ہے
کیوں اس طرح روٹھے ہوئے بیٹھے ہیں حضور آپ؟
ایسی تو کوئی بات فسانے میں نہیں ہے
اخلاص کی باتیں ہیں کہ تسنیم کے دھارے
احباب کی محفل ہے کہ فردوس بریں ہے
اک ان کے نہ ہونے سے یہ عالم ہے کہ جیسے
دنیا کی کوئی چیز مرے پاس نہیں ہے
اے رات کے صحرا میں بھٹکتے ہوئے تارو!
منزل کا نشاں موت ہے اور صبح قریں ہے
بس اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ عشرتؔ!
شاعر ہے، جواں سال ہے، اور خندہ جبیں ہے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
امرت لعل عشرتؔ
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...