آج اردو ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار، ناول نگار، مزاح نگار، ڈراما نویس، صحافی اور براڈ کاسٹر اے حمید کی برسی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے حمید 25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ میٹرک امرتسر سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آ گئے اور یہاں پر پرائیویٹ طور پر ایف اے پاس کر کے ریڈیو پاکستان میں اسسٹنٹ اسکرپٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان میں ملازمت کے بعد وائس آف امریکہ سے وابستہ ہوئے۔
اُن کے افسانوں کا پہلا ہی مجموعہ ’’منزل منزل‘‘ بے حد مقبول ہوا جو اُن کی رومانوی افسانہ نگار کے طور پر پہچان بن گیا۔ افسانوں کے علاوہ طویل عرصہ تک اخبارات میں باقاعدہ کالم نویسی بھی کرتے رہے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن کے لیے بہت سے پروگرام لکھے جو بے حد مقبول ہوئے۔ افسانہ نویسی اُن کی بے حد پسندیدہ اور مقبول صنف ادب ہے
83 سالوں میں 200 کتابیں، اگر بچپن اور بیماری کے سال نکال دئیے جائیں تو ہر سال 5 کتابوں کی اوسط بنتی ہے۔ کیا کوئی اور ہو گا جس اکیلے نے اس قدر کام کیا ہو۔ افسانے، ناول، قسط وار ناول، کالم، ریڈیو کالم، اخباری کالم، ٹی وی ڈرامے، جاسوسی کہانیاں، سفر نامے کون سا موضوع ہے جو ان کے قلم کی دسترس میں نہ رہا ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر موضوع اور صنف پر اس قدر لکھنے کے باوجود ان کی پہچان رومانوی افسانہ نگار کی ہی رہی۔
بقول منٹو: ’’وہ تو کھمبا دیکھ کر بھی رومانٹک تحریر لکھنے پہ قادر ہے۔‘‘
شاید اصل وجہ کچھ اور ہی ہوگی۔ افسانہ نگاری ان کی محبت تھی۔ باقی ساری تحریریں ضرورت اور روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے میں معاون و مددگار…وہ ہمارے ان معدودے چند ادیبوں میں سے تھے جو قلم کے مزدور تھے۔ کسی سرکاری نوکری کے بغیر، کسی ادارے کی ماہانہ سرپرستی سے دُور سمن آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے کمرے میں بچھی چارپائی اور کونے میں دھری میز کرسی پہ بیٹھتے اور بے تکان لکھتے ہی جاتے N؍454 سمن آباد کے وہ کب مقیم ہوئے، ہم نے تو اُنہیں روزِ اوّل سے وہیں دیکھا۔ وہیں وہ ہفتہ بھر جوگی کی طرح چلہ کاٹتے اور پھر ایک مخصوص دن نکلتے اور فیروز سنز، ریڈیو پاکستان اور روزنامہ نوائے وقت کے دفتر جاتے۔ بیچ میں کبھی مقبول اکیڈمی یا اُردو بازار کچھ کام ہوتا تو وہاں بھی چلے جاتے۔
وہ اُن ادیبوں میں سے تھے جو تقریبات میں رونمائی کم ہی کراتے ہیں۔ نہ مفت میں کتابیں لکھتے اورنہ بانٹتے تھے۔ اے حمید کے دوست بھی مخصوص تھے۔ شوق بھی اور ضرورتیں بھی۔ سگریٹ وہ بے تحاشا پیتے اور چائے کوہ قاف کا وہ طوطا تھا جس میں اُس محنتی جن کی جان اَٹکی ہوئی تھی…وہ اپنے لکھے ایک ایک لفظ کی اہمیت سے آگاہ تھے، اِس لیے اُس کی قیمت وصول کرتے۔ اِس معاملے میں مروّت نہ برتتے، مسکرا کر کہتے ’’بابا گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟‘‘
اے حمید نے اپنے عروج و زوال کا عہد اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ریڈیو پاکستان کے سکرپٹ ایڈیٹر سے پی ٹی وی کے عینک والے جن کا سکرپٹ لکھنے تک کا سفر قریباً 50 سالوں میں پھیلا ہوا ہے۔
اے حمید ماضی میں رہنے کو اِس قدر پسند کرتے تھے کہ کبھی کبھی تو وہ آپ کے ساتھ بیٹھے بیٹھے اچانک ماضی کے حوالوں، یادوں ، لوگوں ، باغوں، عادتوں، موسموں اور منظروں کا ذکر کرتے کرتے آپ کی موجودگی سے ہی بے نیاز ہو جاتے تھے۔
83 سالوں میں 200 کتابیں لکھنے والے محبوب صفت اے حمید بارش، چائے اور سماورا کی باتیں جاتے جاتے اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ منظروں، خوشبوؤں، ذائقوں، لوگوں اور جگہوں کا ایسا عاشق اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ ہاں جب جب ملنے کو جی چاہے گا اپنی کسی کتاب کے کسی صفحے سے وہ نیم وا آنکھوں سے دیکھیں گے۔ لمبا سا کش لیں گے اور بولیں گے: ’’ اچھا یار توں پڑھ، میں چلداں ۔۔‘‘
اردو ادب کے عظیم سپوت اے حمید 29 اپریل 2011ء بروز جمعہ کو لاہور میں انتقال کر گئے۔
#تصانیف
اے حمید کی تصانیف کی فہرست بہت طویل ہے۔ جن میں اُردو شعر کی داستان‘ اردو نثر کی داستان‘ اور ’مرزا غالب لاہور میں‘ داستان گو اشفاق احمد، زرد گلاب، اور چنار جلتے رہے، پیلا اداس چاند، جھیل اور کنول، خزاں کا گیت، آدھی رات کا شہر، قرطبہ کی خاموش اذانیں، تلاش محبت، سنگ دوست، جنگل اداس ہے، منزل منزل، ایراوتی کے آنسو، ناریل کا پھول، چائے والا، پھول گرتے ہیں، پیپل والی گلی، کچھ یادیں کچھ آنسو، لنکا سری لنکا، ویران جزیرے، لاہور کی یادیں، دیکھو شہر لاہور، جنگل روتے ہیں، میں خزاں میں آئوں گا، پیرس کی سنہری راتیں، رنگون سے فرار، گلستان ادب کی سنہری یادیں، سیاہ پھول، مٹی کی مونا لیزا، قصہ آخری درویش کا، وینس کی سلگتی راتیں قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ انہوں نے متعدد جاسوسی اور بچوں کی سیریز بھی تحریر کیں۔ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بھی متعدد ڈرامے تحریر کیے۔ 1990ء میں پی ٹی وی پر چلنے والا ان کا ڈرامہ ’’عینک والا جن‘‘بے حد مقبول ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد