والد نے دوسری شادی کرلی ، طفیل عرشی کو اچھا نہ لگا ، والدہ اور ہمشیرہ کو لے کر داجل سے لاہور آگئے۔ یہ زمانہ تھا 1969 کا۔
والدہ پسماندہ ترین علاقے سے تعلق کے باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ پچھلی صدی کے اوائل میں جب کوئی لڑکیوں کو قریبی قصبے بھی نہیں بھیجتا تھا، ان کے والد نے تعلیم کیلئے علی گڑھ بھیجا تھا۔ اپنے علاقے میں واپس آکر بہت عرصہ گورنمنٹ سکولز میں پڑھاتی رہیں۔ ہیڈ مسٹرس بنیں ۔
بختاور کریم لاہور آئیں تو پڑھنے لکھنے پر توجہ رہی۔ خواجہ فرید کی شاعری کی تفہیم کیلئے مضامین لکھے، قرآن مجید کی تفسیر سرائیکی میں لکھی۔ سرائیکی شاعری کی، مجموعہ’’ اٹک مٹک دیداں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔
اب ایسی ماں کا اولاد پر اثر ہونا ہی تھا۔ بیٹی عمرانہ پروین نے دو تین مضامین میں ایم اے کے ساتھ قانون کی ڈگری بھی حاصل کر لی، شاعری کی ( عنبر تخلص رکھا ) ، فریدیات کے سلسلے میں مضامین لکھے۔ ان مضامین کا مجموعہ ’’چاہتِ فرید‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ پھر وکالت شروع کی تو وکیل برادری میں عزت اور توجہ حاصل کی، لاہور ڈسٹرکٹ بار سے سپریم کورٹ بار تک کی نائب صدر بنیں۔
طفیل عرشی معاشی طور پر مستحکم ہوئے تو ادب و ثقافت کی طرف متوجہ ہوئے۔ سرائیکی میں شاعری شروع کی، جس کا ایک مجموعہ ’’پریت دیاں گٹیاں‘‘ بھی شائع ہوا۔ سرائیکی روزنامہ ’’ سانول‘‘ اور اردو ہفت روزہ ’’ آسمان‘‘ طویل عرصہ شائع کرتے رہے۔ اس سے پہلے سہ ماہی ’’پیامِ فرید‘‘ اور ہفت روزہ ’’قوس قزح‘‘ بھی جاری کیا، لیکن سب سے بڑھ کر1979 میں خواجہ فرید اکیڈمی قائم کرنا تھا۔ یہ تھوڑے عرصے میں لاہور کی فعال ترین تنظیم بن گئی اور طفیل عرشی لاہور کے ثقافتی افق پر چھا گئے۔ بے شمار تقریبات کا اہتمام کیا، جن میں شہر کا ہر اہم شخص شریک ہوا۔
لیکن افسوس کہ طفیل عرشی اپنے سماجی اور پیشہ ورانہ کیریئر کے عروج پر تھے کہ 29 اپریل 1995 کو پیرووال، خانیوال کے قریب جیپ کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ آج ان کی 25ویں برسی ہے.
یہ تصویر خواجہ فرید اکیڈمی کی طرف سے ممتاز مستشرق اور سرائیکی کے محقق ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل کو استقبالیہ کےموقع کی ہے ۔۔۔
بیٹھے ہوئے: بیگم طفیل عرشی، عمرانہ بلوچ ایڈووکیٹ ، ڈاکٹر کرسٹوفر شیکل ، سردار عاشق محمد خاں مزاری، پروفیسر مسرت کلانچوی، پروین عاطف
کھڑے ہوئے: اسلم ملک ، ڈاکٹرمحمد اقبال شاہ، محمد طفیل عرشی، ڈاکٹر کھچی، محمد جمیل، اظہر جاوید اور شیخ خلیل الرحمنٰ۔
“