آج – یکم؍جولائی 1887
مشہور اردو اسکالر اور شاعر جگن ناتھ آزاد کے والد اور مشہور شاعر” جناب تلوک چند محرومؔ “ کا جنم دن…
معروف شاعر تلوک چند محرومؔ، یکم؍جولائی ۱۸۸۷ء کو ضلع میاں والی (پنجاب ، پاکستان ) میں پیدا ہوئے ۔ بی ، اے تک تعلیم حاصل کی اور پھر مختلف مقامات پر درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ تقسیم کے وقت بھڑک اٹھنے والے فسادات کی بنا پر راولپنڈی سے دہلی ہجرت کر گئے ۔
محرومؔ کے یہاں شاعری کا جذبہ بہت فطری تھا وہ بہت چھوٹی سی عمر ہی سے شعر کہنے لگے تھے ۔ ۱۹۰۱ء میں جب مڈل اسکول کے طالب علم تھے تو ملکہ وکٹوریہ کا مرثیہ لکھا ۔ ہائی اسکول کی طالب علمی کے دور میں رسالہ ’ زمانہ ‘ اور ’ مخزن ‘ میں ان کی نظمیں شائع ہونے لگی تھیں ۔ تلوک نے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ ان کی نظموں میں قومی جذبات بہت شدت کے ساتھ موجود ہیں ، اس حوالے سے وہ چکبست اور سرور جہاں آبادی کی روایت کے امین تصور کئے جاتے ہیں ۔ محروم نے بچوں کے لئے بھی لکھا ، بچوں کے لئے لکھی گئی ان کی نظمیں بچوں میں قومی جذبات کو ابھارنے اور ان کو زندگی کی مثالی اقدار سے متعارف کرانے کیلئے مؤثر ہیں ۔
گنج معانی ، رباعیات ، کاروان وطن ، نیرنگ معانی ، بچوں کی دنیا ، بہار طفلی ، ان کے شعری مجموعے ہیں ۔
6؍جنوری 1966ء کو دہلی میں انتقال ہوا ۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
مشہور اردو شاعر تلوک چند محرومؔ کے جنم دن پر چند اشعار بطور خراجِ عقیدت…
تلاطم آرزو میں ہے نہ طوفاں جستجو میں ہے
جوانی کا گزر جانا ہے دریا کا اتر جانا
—
اٹھانے کے قابل ہیں سب ناز تیرے
مگر ہم کہاں ناز اٹھانے کے قابل
—
اے ہم نفس نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی ادھر آئی ادھر گئی
—
بعد ترکِ آرزو بیٹھا ہوں کیسا مطمئن
ہو گئی آساں ہر اک مشکل بہ آسانی مری
—
یوں تو برسوں نہ پلاؤں نہ پیوں اے زاہد
توبہ کرتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
—
ہوں وہ برباد کہ قسمت میں نشیمن نہ قفس
چل دیا چھوڑ کر صیاد تہ دام مجھے
—
دل کے طالب نظر آتے ہیں حسیں ہر جانب
اس کے لاکھوں ہیں خریدار کہ مال اچھا ہے
—
نہ رہی بے خودیٔ شوق میں اتنی بھی خبر
ہجر اچھا ہے کہ محرومؔ وصال اچھا ہے
—
صاف آتا ہے نظر انجام ہر آغاز کا
زندگانی موت کی تمہید ہے میرے لیے
—
دام غمِ حیات میں الجھا گئی امید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
—
برا ہو الفتِ خوباں کا ہم نشیں ہم تو
شباب ہی میں برا اپنا حال کر بیٹھے
—
فکرِ معاش و عشقِ بتاں یادِ رفتگاں
ان مشکلوں سے عہدِ برآئی نہ ہو سکی
—
دستِ خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسنِ ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی
—
اس کا گلہ نہیں کہ دعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
—
نہ بھولے گا ہمیں محرومؔ صبح روزِ محشر تک
کسی کا موت کے آغوش میں وقتِ سحر جانا
—
خدا سے وقتِ دعا ہم سوال کر بیٹھے
وہ بت بھی دل کو ذرا اب سنبھال کر بیٹھے
—
یہاں تو ضبطِ جنوں پر نہ کر مجھے مجبور
فضائے دشت ہے اے عقل بزمِ یار نہیں
—
نہ علم ہے نہ زباں ہے تو کس لیے محرومؔ
تم اپنے آپ کو شاعر خیال کر بیٹھے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
تلوک چند محرومؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ