آج نامور نقاد،ڈرامہ نگار ،اردو اور فارسی کے شاعر سید عابد علی عابدؔ کا یومِ وفات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مشہور زمانہ، ضرب المثل شعر ہے
دَمِ رُخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
بعض اوقات اچھے بھلے لکھنے پڑھنے والے لوگ بھی اس شعر کے پہلے مصرع کی ابتدا میں ’’ وقتِ رخصت‘‘ لگا کے پڑھتے لکھتے ہیں، جبکہ سید عابد علی عابد نے ’’وقت رخصت‘‘ نہیں کہا، دَمِ رخصت‘‘ کہہ رکھا ہے اصل شعر اُن کے اولین مجموعہ کلام ’’شبِ نگار بنداں‘‘ میں اس طرح صحیح طور پر درج ہے:
دَمِ رُخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
اس خوبصورت مقطع،یا بے بدل شعر کے خالق اور ایسے ہی متعدد اشعار بلکہ کئی شعری مجموعوں کے حامل شاعر سید عابد علی عابد کے آباؤ اجداد کا تعلق جگراؤں (انڈیا) کے ایک علمی خانوادے سے تھا لیکن سید عابد علی عابد کی ولادت ڈیرہ اسماعیل خان میں 17 ستمبر 1906ء کو سید غلام عباس شاہ کے ہاں ہوئی۔۔۔!
سید عابد علی عابدکی زیادہ تر تعلیم و تربیت ’’شہرِ زنداں دلاں لاہور‘‘ میں ہوئی، یہیں پنجاب یونیورسٹی سے انہوں نے فارسی میں ایم اے کیا اور ایل ایل بی کے بعد گجرات میں کچھ عرصہ وکالت بھی کی مگر وکالت کا پیشہ ان کے شعری و ادبی ذوق کے لئے قطعاً ہموار ثابت نہ ہوا۔ لاہور سے خصوصی دل بستگی کے سبب انہوں نے لاہور کے مشہور کالج، دیال سنگھ کالج سے درس و تدریس کا آغاز کیا اور پھر اسی کالج کے لگ بھگ سات برس (1947ء سے 1954ء تک) پرنسپل بھی رہے۔اگرچہ سید عابد علی عابد کا بنیادی حوالہ شاعری ہی ہے کہ وہ شروع شروع میں عابد لاہوری کے قلمی نام سے شاعری کرتے رہے، مگر وہ ایک ہمہ جہت ہمہ گیر، ہمہ پہلو شخصیت کے نابغہ روز گار شخص و شاعر تھے اور ’’کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے‘‘۔۔۔ کے مصداق بہت سے ادبی میدانوں میں خود کو منوانے کی للک رکھتے تھے، چنانچہ سید عابد علی عابد کا پورا تعارف شاعر، ادیب، افسانہ نگار، ڈراما نویس، ماہر موسیقی، مترجم، ماہر تعلیم، نقاد، محقق، مدیر اور شخصِ بے نظیر کے طور پر کرایا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔۔۔!اَدبی دنیا میں سید عابد علی عابد کی بھرپور آمد بطور مدیر ’’ادبی دنیا‘‘ ہوئی، پھر انہوں نے اپنا ایک ذاتی ادبی جریدہ ’’ہزار داستان‘‘ کے نام سے کچھ عرصہ لاہور سے نکالا۔ ادبی رسائل کی ادارت کا چسکا ایسا تھا کہ کالج کی تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں سے سبکدوشی کے بعد مجلس ترقی ادب سے وابستگی کے بعد مجلس کے ادبی مجلے ’’صحیفہ‘‘ کے بانی مدیر ٹھہرے۔۔۔ دو ادوار میں اس جریدے کے دمِ آخر تک مدیر رہے۔ ادارت کا یہ دورانیہ دس بارہ برس سے زائد کے لگ بھگ رہا انہوں نے ’’صحیفہ ‘‘کا ایک ایسا علمی، ادبی، تحقیقی تنقیدی اور شعری معیار قائم کیا، جس تک ان کے بعد مکمل طور پر کوئی مدیر نہ پہنچ سکا۔
سید عابد علی عابد علم و فضل میں یکتائے زمانہ تھے وہ اُردو، فارسی، انگریزی، عربی، سنسکرت میں دسترس رکھتے تھے۔ غزل، تنقید اور ڈراما ان کے فنی اظہار کی خصوصی جولان گاہ تھی۔
اُن کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ باقاعدہ طور پر 1923ء سے شروع ہوا جب ان کی پہلی نثری کتاب ’’حجاب زندگی اور دوسرے افسانے ‘‘ کے عنوان سے چھپی۔ پھر افسانوں ہی کی دوسری کتاب ’’قسمت اور دوسرے افسانے ‘‘ شائع ہوئی ناولٹ ’’شمع ‘‘ 1947ء میں چھپا بعد ازاں دکھ سکھ اور سہاگ اور ڈراموں کا ایک مجموعہ ’’ یَدِ بیضا‘‘ کے نام سے چھپا! اس کے علاوہ ’’ روپ متی، بازبہادر، بھی شہور ڈراما ہے‘‘ یہ سب نثری کتب افسانوں اور ڈراموں پر مشتمل تھیں جو پہلے چھپ گئیں، بنیادی شناخت شاعری تھی مگر شعری مجموعہ ’’شبِ نگار بنداں ‘‘ 1955ء میں چھپ سکا اور اس مجموعے کی اشاعت نے بطور شاعر عابد علی عابد کا ڈنکا بجا دیا۔
اُردو تراجم کا آغاز ایک ناول ’’بشیر ہے کیا کہئے؟ ‘‘ کی اشاعت سے ہوا۔ اور پھر ’’ قیامت کی رات‘‘ ۔۔۔ ’’تعلیم کا عمل ‘‘ اور ’’ میراثِ ایران‘‘ انگریزی اور فارسی سے تراجم کی صورت میں ظہور پذیر ہوئیں۔ ان کے علاوہ ’’یہ ہے افریقہ ‘‘ ۔۔۔ ’’ داستانِ فلسفہ‘‘ اور ایران قدیم کے نام سے بھی تراجم کی کتب اشاعت پذیر ہوئیں۔۔۔ ان تراجم والی کتابوں میں ’’ داستانِ فلسفہ‘‘ کو خصوصی مقبولیت وپذیرائی حاصل ہوئی۔عابد صاحب کی مطبوعہ تنقیدی و تحقیقی کتب میں ’’انتقاد‘‘۔۔۔ تلمیحات اقبال۔۔۔ شعرِ اقبال۔۔۔ اصولِ انتقاد ادبیات، تنقیدی مضامین، اسلوب، البیان، اوزالبدیع شامل ہیں۔
شعری مجموعوں میں ’’ شبِ نگار بنداں‘‘ کے بعد ’’برشیم عود‘‘ اور ’’میں کبھی غزل نہ کہتا ‘‘کا اضافہ ہو سکا۔ مجموعہ کلام ’’ میں کبھی غزل نہ کہتا‘‘ کے عنوان سے قطعِ نظر عابد علی عابد فی الحقیقت غزل کے شاعر تھے اور غزل کے حوالے سے ہی ان کی ایک پہچان ہے۔ ایسے ایسے شعر کہنے والا شاعر غزل بھلا کیوں نہ کہتا؟
تصویر لیلی ہو دَج نشیں تھی، لیلیٰ نہیں تھی
ذوقِ تماشا کیا جھانکتا تھا محمل بہ محمل
دوستو ہم نفسو! سنتے ہو عابد کی غزل
یہ وہی شعلہ نوا، سوختہ جاں ہے، کہ جوتھا
دل بھی دیتا ہے مجھے مشورۂ ترکِ وفا،
کچھ نقاضائے جہانِ گزراں ہوتا ہے
مَیں تو ہوں شیفتہء رنگِ تغزل عابد
کیا یہی شاہدِ خونیںِ جگراں ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھنا یہ غزل ہے عابد کی
کہیں چُھپتا بھی ہے مزاج کا رنگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا جینا ہے سیج کانٹوں کی
اُن کے مرنے کا نام تاج محل
پیار کی راگنی انوکھی ہے
اس میں لگتی ہیں سب سُریں کومل
مجھے دھوکا ہُوا کہ جادو ہے
پاؤں بجتے ہیں تیرے بِن چھاگل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید عابد علی عابد کی غزل میں ایک خاص قسم کا رس چَس تھا، جو رومانی غزل کا خاصہ ہے، وہ شعر گوئی میں دبستانِ لکھنوء کے پیرو تھے اگرچہ ذاتی طور پر وہ ’’دبستانِ لکھنوء‘‘ اور ’’دبستان دہلی‘‘ کی بحث کو بے بنیاد سمجھتے تھے۔
عابد صاحب کے نو مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ ’’تنقیدی مضامین‘‘ ہے، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اس مجموعے میں ان کے متنوع مضامین یکجا ہیں، یہ وہ مضامین ہیں، جو مختلف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہو کر موضوعِ بحث بنتے رہے!اس کتاب میں ایک معرکہ آراء مضمون ’’دہلی اور لکھنوء کے شعری دبستان‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ اس مضمون میں موضوع سے متعلق مخالف اور موافق بحثوں کا اچھا خاصا جمگٹھا لگا لیا گیا ہے۔سید عابد علی عابد کے نزدیک ادب میں دہلویت اور لکھنویت کی بحث کو نزاعی رنگ دینے میں ’’صاحبِ شعر الہند‘‘ مولانا عبدالسلام ندوی کو اولیت حاصل ہے۔ تاہم یہ بحث اس سے بھی پرانی ہے۔ عابد صاحب کے خیال میں یہ بے بنیاد بحث ہے، کیونکہ اس میں اُلجھ کر قاری شاعر کے تجربے تک پہنچنے کی بجائے لفظی اُلٹ پھیر کا شکارہو کر رہ جاتا ہے۔ عابد صاحب کے نزدیک بنیادی بات زبان کی صفائی اور درستی نہیں بلکہ تجربے کی سچائی اور شعری اظہار ہے۔۔۔!۔
یہ نابغہِ روزگار شخص و شاعر دنیائے علم و ادب پر اپنا نقش جما کر 20جنوری 1971ء کو راہیء ملک عدم ہوا۔ تدفین لاہور کے مومن پورہ قبرستان میں ہوئی۔ ان کی شاعرہ صاحبزادی شبنم شکیل، ،پہلے شبنم عابد علی تھیں جن کی والدہ بلقیس عابد علی بھی ناول نگار، افسانہ نگار تھیں۔
مرحومہ شبنم شکیل راوی تھیں کہ عابدؔ صاحب کی وفات سے ایک روز پہلے یعنی 19جنوری 1971ء کو جب ’’بابا‘‘ سے ہسپتال میں آخری ملاقات ہوئی تو میری اُڑی ہوئی رنگت اور کانپتے ہاتھ دیکھ کر بولے ’’شبو! مَیں مرنے والا نہیں، مَیں زندہ رہوں گا مَیں وعدہ کرتا ہوں‘‘!
ڈوبتے ہوئے دل اور چکراتے ہوئے ذہن کے ساتھ ایک مشہور شعر میری زبان پرآتے آتے رہ گیا:
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو، تمہیں اعتبار ہوتا
دراصل سید عابد علی عابد جب کہہ رہے تھے کہ مَیں مرنے والا نہیں، میں زندہ رہوں گا‘‘ تو اس سے مراد یہ تھی کہ وہ ادب کی دنیا میں زندہ رہیں گے اور اس حقیقت کا اعتراف ہر کوئی کرے گا کہ سید عابد علی عابد آج بھی زندہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سید عابد علی عابد کی چند تخلیقات
مدیر صحیفہ لاھور
فلسفہ کی کہانی۔ ول ڈوارنٹ کی مشہور کتاب کا اردو ترجمہ
میں کبھی غزل نہ کہتا ۔ شاعری۔ سنگِ میل پبلیکیشنز
اصولِ انتقادِ ادبیات ۔ اردو تنقید کی مشہور ترین کتاب جو ایم اے کے نصاب میں بھی شامل ہے۔
البدیع محسنات۔ شاعری کا انتقادی جائزہ۔ شائع کردہ مجلسِ ترقیِ ادب
البیان۔ شائع کردہ مجلسِ ترقیِ ادب
اسلوب۔ شائع کردہ مجلسِ ترقیِ ادب
شعرِ اقبال۔ سنگِ میل پبلیکیشنز
نظریہ سیاسیِ شیعہ۔ فارسی
طلسمات۔ اردو ناول۔ ھاشمی بک ڈپو
شہباز خان۔اردو ناول۔ سنگِ میل پبلیکیشنز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل ہے آئینہء حیرت سے دو چار آج کی رات
غمِ دوراں میں ہے عکسِ غمِ یار آج کی رات
آتشِ گل کو دامن سے ہوا دیتی ہے
دیدنی ہے روشِ موجِ بہار آج کی رات
آج کی رات کا مہماں ہے ملبوسِ حریر
اس چمن زر میں اگتے ہیں شرر آج کی رات
میں نے فرہاد کی آغوش میں شیریں دیکھی
میں نے پرویز کو دیکھا سرِ دار آج کی رات
جو چمن صرفِ خزاں ہیں وہ بلاتے ہیں مجھے
مجھے فرصت نہیں اے جانِ بہار آج کی رات
مشعلِ شعر کا لایا ہوں چڑھاوا عابد
جگمگاتے ہیں شہیدوں کے مزار آج کی رات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعظ شہر خدا ہے مجھ معلوم نہ تھا
یہی بندے کی خطا ہے مجھے معلوم نہ تھا
غم دوراں کا مداوا نہ ہوا پر نہ ہوا
ہاتھ میں کس کے شفا ہے مجھے معلوم نہ تھا
نغمہء نے بھی نہ ہو بانگ بط مے بھی نہ ہو
یہ بھی جینے کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
میں سمجھتا تھا جسے ہیکل و محراب و کنشت
میرا نقش کف پا ہے مجھے معلوم نہ تھا
اپنے ہی ساز کی آواز پر حیراں تھا میں
زخمہء ساز نیا ہے مجھے معلوم نہ تھا
جس کی ایما پہ کیا شیخ نے بندوں کو ہلاک
وہی بندوں کا خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
خطبہ ترغیب کا ردا ہے اے دوست
شعر کہنے کی سزا ہے مجھے معلوم نہ تھا
شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا
یہ تیری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا
وہ مجھے مشورہء ترک وفا دیتے تھے
یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا
چہرہ کھولے نظر آتی تھی عروس گل نار
منہ پہ شبنم کی ردا ہے مجھے معلوم نہ تھا
کفر و ایماں کی حدیں کس نے تعین کی تھیں
اس پہ ہنگامہ بپا ہے مجھے معلوم نہ تھا
یہی مار دو زباں میرا لہو چاٹ گیا
رہنما ایک بلا ہے مجھے معلوم نہ تھا
عجب انداز سے تھا کوئی غزل خواں کل رات
عابدؔ شعلہ نوا ہے مجھے معلوم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مے ہو ساغر میں کہ خوں رات گزر جاۓ گی
دل کو غم ہو کہ سکوں رات گزر جاۓ گی
دیکھنا یہ کہ انداز سحر کیا ہوں گے
یوں تو ارباب جنوں رات گزر جاۓ گی
نہ رکا ہے نہ رکے قافلہء لیل و نہار
رات کم ہو کہ فزوں رات گزر جاۓ گی
میں ترا محرم اسرار ہوں ات صبح بہار
جا کے پھولوں سے کہوں رات گزر جاۓ گی
مژدہء صبح مبارک تمھیں اے دیدہ ورو
میں جیوں یا نہ جیوں رات گزر جاۓ گی
رات بھر میں نے سجاۓ سر مثگاں تارے
مجھ کو تھا وہم کہ یوں رات گزر جاۓ گی
صبح اٹھ کر تجھے رہ رو سے لپٹنا ہو گا
رہبر تیرہ دروں رات گزر جاۓ گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گردش جام نہیں رک سکتی
جو بھی اے گردش دوراں گزرے
صبح محشر ہے بلاۓ ظاہر
کسی صورت شب ہجراں گزرے
کوئی برسا نہ سر کشت وفا
کتنے بادل گہر افشاں گزرے
ابن آدم کو نہ آیا کوئی راس
کئی آذر کئی یزداں گزرے
اے غم تری راہواں سے
عمر بھر سوختہ ساماں گزرے
وہ جو پروانے جلے رات کی رات
منزل عشق سے آساں گزرے
غم ہستی کے بیابانوں سے
کچھ ہمیں تھے ججو غزلخواں گزرے
غم کے تاریک افق پر عابدؔ
کچھ ستارے سر مژگاں گزرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام ہو فیض بہاراں تو مزا آ جاۓ
چاک ہوں سب کے گریباں تو مزا آ جاۓ
واعظو میں بھی تمھاری ہی طرح مسجد میں
بیچ دوں دولت ایماں تو مزا آ جاۓ
کیسی کیسی ہے شب تار یہاں چیں بہ جبیں
صبح اک روز ہو خنداں تو مزا آ جاۓ
ساقیا ہے تری محفل میں خداؤں کا ہجوم
محفل افروز ہو انساں تو مزا آ جاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود