آج – 19؍فروری 2008
غیر مسلم شعرا میں معروف نغمہ نگار اور مشہور شاعر” سدرشن فاخرؔ صاحب “ کی برسی…
سدرشن فاخرؔ 1934ء میں جالندھر میں پیدا ہوئے۔وہ مشرقی پنجاب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم اردو شاعروں کے چھوٹے اور کم ہوتے قبیلے میں سے تھے۔ وہ پہلے گیت نگاری کرتے تھے جنھوں نے اپنے لکھے ہوئے پہلے گانے 'وہ کاغذ کی کشتی' کے لئے فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا ۔قومی این ۔سی ۔ سی سونگ آف انڈیا ۔ 'ہم سب بھارتیہ ہیں' ان کا ہی لکھا ہوا ہے۔ غیر فلمی موسیقی کے علاوہ ، سدرشن فاخر نے مختلف فلموں کے گیت بھی قلمبند کیے ہیں۔ ان کا انتقال 19؍فروری 2008ء کو جالندھر میں ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
مشہور شاعر سدرشن فاخرؔ کی برسی پر منتخب اشعار و خوبصورت نظم بطورِ خراجِ عقیدت…
عشق ہے عشق یہ مذاق نہیں
چند لمحوں میں فیصلہ نہ کرو
—
سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں
—
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
—
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا
—
میرے دکھ کی کوئی دوا نہ کرو
مجھ کو مجھ سے ابھی جدا نہ کرو
—
ذکر جب ہوگا محبت میں تباہی کا کہیں
یاد ہم آئیں گے دنیا کو حوالوں کی طرح
—
ہر طرف زیست کی راہوں میں کڑی دھوپ ہے دوست
بس تری یاد کے سائے ہیں پناہوں کی طرح
—
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا
—
فلسفے عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح
ہم پریشاں ہی رہے اپنے خیالوں کی طرح
—
کچھ دیر ٹھہر جائیے اے بندۂ انصاف
ہم اپنے گناہوں میں خطا ڈھونڈ رہے ہیں
—
چند معصوم سے پتوں کا لہو ہے فاخرؔ
جس کو محبوب کی ہاتھوں کی حنا کہتے ہیں
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
وہ کاغذ کی کشتی…
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
محلے کی سب سے نشانی پرانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گرتے سنبھلنا
وہ پیتل کے چھاؤں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کے مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوب صورت تھی وہ زندگانی
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
سدرشن فاخرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ