سندھ کے معروف ترقی پسند شاعر انور پیرزادہ 25 جنوری 1945ء کو بالھریجی تعلقہ ڈوکری ضلع لاڑکانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ انور پیرزادہ نے عملی زندگی کا آغاز درس و تدریس سے کیا۔ 1969ء میں انہوں نے انگریز ادبیات میں ایم اے کا امتحان پاس کیا اور اسی برس سندھ یونیورسٹی میں لیکچرار کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کیا۔
تاہم بعد میں انہوں نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران میں وہ چٹاگانگ میں تعینات رہے۔ وہ کچھ وقت کے لئے پاکستان ایر فورس میں رہے مگر ایک سیاسی خط لکھنے کی پاداش میں گرفتار ہوئے اور پھر انہوں نے صحافت کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔
اس پر آشوب دور کی صورت حال کے بارے میں ایک دوست کو لکھے گئے خط میں انہوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر کیا۔ لیکن ان کا خط حکام کے ہاتھ لگ گیا اور انہیں کورٹ مارشل کے ذریعے ایئر فورس کی ملازمت سے برخاست کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ صحافت کے پیشہ سے منسلک ہو گئے۔
بائیں بازو کے نظریات رکھنے کے باعث وہ کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان سے وابستہ تھے۔ ضیاء دور میں انہیں ایک بار پھر قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ لاڑکانہ اور سکھر میں ڈان کے نامہ نگار کے فرائض انجام دیتے رہے تھے اور وہ عوامی آواز، برسات، سندھ ٹریبیون اور ریجنل ٹائمز آف سندھ کے مدیر رہے تھے۔ انہوں نے آزادی صحافت کی جدوجہد میں دو مرتبہ جیل یاترا بھی کی تھی۔
جیل میں انہوں نے صوفی شاعر شاہ عبد الطیف بھٹائی کے کلام کا مطالعہ کیا اور اس پر تحقیق کے ذریعے ان کی شاعری کو بائیں بازو کے نظریات کے تحت سمجھنے کا طرز فکر متعارف کرایا۔ اپنی اس کاوش کی وجہ سے انہیں سندھ میں ترقی پسند سیاسی کارکنوں اور نوجوانوں میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔
ان کا تعلق ضلع لاڑکانہ کے دیہات بلھڑیجی سے تھا، جو ترقی پسند سیاست دانوں اور ادیبوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا تھا۔ بلھڑیجی کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے سابق سوویت یونین سے تعلیم حاصل کی اور شاید اسی وجہ سے اس گاؤں کو سندھ میں ’لٹل ماسکو‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ناقدین کے مطابق انور پیرزادہ کی ترقی پسند شاعری کے مجموعے ’اے چنڈ بھٹائی کھی چئجاں ‘ (اے چاند بھٹائی کو کہنا) نے سندھی ادب کو تازگی بخشی۔ وہ سندھ کے آثار قدیمہ میں بھی گہری دلچسپی لیتے رہے۔
انہوں نے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس کے پاکستان کی حدود میں داخل ہونے سے لیکر سمندر میں شامل ہونے تک کا سفر بھی کیا۔
انور پیرزادو کی سندھی شاعری کا مجموعہ اے چند بھٹائی کھے چھیجن کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جبکہ ان کی مرتبہ انگریزی کتب میں سندھ گزیٹئر، لاڑکانہ گزیٹئر اور بے نظیر بھٹو اے پولیٹیکل بائیو گرافی شامل ہیں۔
انور پیرزادہ 8 جنوری 2007ء کو 62 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد