مولائی شیدائی 26 اپریل 1894ء کو سکھر، سندھ میں پیدا ہوئے۔
ان کا اصل نام میر رحیم داد خان تھا۔
1913ء میں ریلوے میں ملازمت اختیار کی جہاں وہ کلینر، فائرمین، ٹرین کلرک، یارڈ فورمین، سیکنڈ گارڈ اور پھر گارڈ مقرر ہوئے۔ 1939ء میں محکمہ ریلوے سے سبکدوشی اختیار کی۔ 1934ء میں مولائی شیدائی کا پہلا مضمون شائع ہوا جس کا نام ممتاز محل تھا۔ یہ مضمون دین محمد وفائی کی نظر سے گزرا تو انہوں نے مولائی شیدائی کو مزید لکھنے کی ترغیب دی۔
ریلوے میں ملازمت کے دوران ان کے مضامین ستارہ سندھ، توحید، الوحید اور سندھو نامی اخبارات میں مولائی شیدائی کے قلمی نام سے شائع ہوتے تھے۔ یہ قلمی نام دین محمد وفائی اور پیر علی محمد راشدی نے رکھا تھا۔
1941ء میں وزیر اعلیٰ سندھ خان بہادر اللہ بخش سومرو کے اخبار روزنامہ آزاد کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ روزنامہ آزاد کانگریسی اخبار تھا اسی لیے انہوں نے علیحدگی اختیار کرکے 1945ء میں روزنامہ ہلال پاکستان حیدرآباد کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 1950ء میں سندھ یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو مقرر ہوئے جہاں وہ پانچ سال تک رہے۔
ان کی تصانیف میں جنت السندھ، تاریخ تمدن سندھ، مختصر تاریخ بلوچستان اور تاریخ قلات خاص کر مشہور ہیں
تصانیف
جنت السندھ
تاریخ تمدن سندھ
تاریخ اسلام
مختصر تاریخ بلوچستان
تاریخ قلات
بلوچستان میں مہدوی تحریک
تاریخ ہند و پاک (ترجمہ)
روضۃ السندھ
موسوین جی مختصر تاریخ
تاریخ خاصخیلی
مقالات شیدائی (4 جلدیں)
تاریخ سکھر (سندھی)
وفات
رحیم داد خان مولائی شیدائی 12 فروری، 1978ء کو سکھر میں وفات پا گئے۔ وہ سکھر میں ٹیکری آدم شاہ میں سپرد خاک ہوئے
بشکریہ وکی پیڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحیم داد مولائی‘‘ سندھ کے نامور مؤرخ و ادیب
تحریر
محمد عارف سومرو
سندھ کی تاریخ نویسی پر نظر ڈالی جائے تو جن مورخین کے نام سامنے آتے ان میں میر سید معصوم شاہ بکھری، سید میر محمد بن جلال ٹھٹھوی ، سید طاہر محمد نسیانی ٹھٹھوی، میر علی شیر قانع ٹھٹھوی، عبد الحلیم شرر، بھیرومل مہرچندایڈوانی، سید سلیمان ندوی، ابو ظفر ندوی، اعجاز الحق قدوسی، پیر حسام الدین راشدی، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ اور آخر میں رحیم داد خان مولائی شیدائی شامل ہیں جنہوں نے سندھ کی تاریخ پر دو اہم کتابیں ’’جنت السندھ‘‘ اور ’’تاریخ تمدن سندھ‘‘ تالیف کیں اور علمی و ادبی حلقوں اور عوام و خواص سے دادِ تحسین حاصل کی۔
رحیم داد خان مولائی شیدائی 1894ء میں سندھ کے شہر سکھر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میر شیر محمد خان تھا۔ ابتدائی تعلیم مولوی خدا بخش ابڑو اور مولوی محمد عظیم بھٹی سے حاصل کی۔ چار درجے سندھی پاس کرنے کے بعد سکھر کے اینگلو ورنیکیولر اسکول میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے چھ درجہ تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد محکمہ ریلوے میں بھرتی ہو گئے۔ 1914ء میں فائرمین، ٹرین کلرک، یارڈ فورمین، سیکنڈ گارڈ اور پھر گارڈ مقرر ہوئے۔
1939ء میں ریلوے کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور پراویڈنٹ فنڈ سے حاصل ہونے والے 8000 روپے کی رقم سے سکھر میں کنگز ہل کے مقام پر ایک مکان تعمیر کرایا جہاں وہ عمر کے آخری حصے تک رہائش پذیر رہے۔
ریلوے میں ملازمت کے دوران ان کے مضامین ستارۂ سندھ، توحید، المنار، الوحید اور سندھو نامی اخبارات میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے تھے، جس میں وہ اصل نام کے بجائے قلمی نام ـ’’ مولائی شیدائی‘‘ استعمال کرتے تھے۔ رحیم داد خان کا یہ قلمی نام سندھ کی دو نامور شخصیات مولانا دین محمد وفائی اور پیر علی محمد راشدی نے تجویز کیا تھا۔
1941ء میں سندھ کے وزیر اعلیٰ خان بہادر اللہ بخش سومرو کے روزنامہ اخبار ’’آزاد‘‘ کے سب ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ چونکہ روزنامہ ’’آزاد‘‘ کانگریسی اخبار تھا، اِس لیے اسے خیرباد کہا اور 1945ء میں حیدرآباد سے نکلنے والے روزنامہ ’’ہلال پاکستان‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے اور یوں ان کی صحافتی زندگی ایک نئے موڑ میں داخل ہوگئی۔ 1950ء میں وہ اپنی علمی استعداد اور قابلیت کی بدولت سندھ یونیورسٹی کے ریسرچ فیلو مقرر ہوئے۔ فیلوشپ کے دوران انہوں نے اپنی دو شاہکار کتابیں ’’جنت السندھ‘‘ اور ’’تاریخ تمدن سندھ‘‘ تالیف کیں۔
1960ء میں جنرل ایوب خان کی حکومت میں ان کے لئے ایک سو روپیہ ماہوار وظیفہ جاری ہوا جو ایک سال بعدہی بند ہوگیا۔ 1962ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ سندھ ریجن کی سفارش پر ان کے لیے وظیفہ جاری ہوا۔ 1941ء میں ان کی کتاب ’’مختصر تاریخ بلوچستان‘‘ شائع ہوئی جس پر انہیں حکومتِ بلوچستان کی جانب سے 400 روپے اور ریاست قلات کی جانب سے 250 روپے بطور انعام ملے۔
اس کے علاوہ ان کی تصانیف ’’جنت السندھ‘‘ اور ’’تاریخ تمدن سندھ‘‘، سندھ کی تاریخ پر شاہکار تسلیم کی جاتیں ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں تاریخ تالپر، موسویوں کی مختصر تاریخ، تاریخ خاصخیلی، تاریخ قلات، بلوچستان میں مہدوی تحریک، سندھ کی اقتصادی تاریخ، مقالات شیدائی، تاریخ سکھر زیادہ مشہور ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کی تاریخ پر ان کی کتابیں مستندماخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔
رحیم داد خان مولائی شیدائی گراں قدر علمی سرمایہ چھوڑ کر 12 فروری 1978ء کو سکھر میں انتقال کر گئے اور سکھر میں ٹیکری آدم شاہ میں سپرد خاک ہوئے۔