دوستی کا دعویٰ تو نہیں ، شعبۂ صحافت میں ہم نشینی کا لطف ضرور اٹھایا۔
اگر حکمرانوں کو شعر یاد کرانے کی مشکل ڈیوٹی نہ ہوتی تواس شاندار شاعر کے اب تک دو تین مجموعے ضرور آچکے ہوتے۔
پیشہ ورانہ قابلیت کے باعث پرویز الہیٰ نے مفید پایا تو شہباز شریف نے بھی ناگزیر ، ورنہ شہباز شریف تو پرویز الہیٰ کے شروع کئے ہوئے ہسپتالوں کے منصوبے بھی روک دیتے رہے ہیں۔
شعیب بن عزیز اپنے محکمے میں سب سے زیادہ گریڈ ترقی پانے والے افسر ہیں۔
دو غزلیں اور کچھ شعر ۔ ۔ ۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
جس طرح شعیب اس کا نام چُن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چُن رکھا ایک نام ناموں میں
+
دل ِآباد کا برباد بھی ہونا ضروری ہے
جسے پانا ضروری ہے، اسے کھونا ضروری ہے
مکمل کس طرح ہوگا تماشہ برق و باراں کا
ترا ہنسنا ضروری ہے مرا رونا ضروری ہے
بہت سی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں
ترے جاگے ہوؤں کا دیر تک سونا ضروری ہے
کسی کی یاد سے اِس عُمر میں دِل کی مُلاقاتیں
ٹھٹھرتی شام میں اِک دُھوپ کا کونا ضروری ہے
یہ خود سر وقت لے جائے کہانی کو کہاں جانے
مصنف کا کسی کردار میں ہونا ضروری ہے
جناب ِ دل بہت نازاں نہ ہوں داغ ِ محبت پر
یہ دنیا ہے یہاں یہ داغ بھی دھونا ضروری ہے
+
غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کے لئے
میں نے یہ جانا کہ کچھہ مجھہ سے کہا ہو
جیسےنگار بزم تیری مسکراہٹیں تو کجا
جہاں پہ ہم ہیں وہاں جام تک نہیں آتے
پرائے شہر میں زندہ ہیں یاد کر کے اُنھیں
گئے ہووؤں کے جنھیں نام تک نہیں آتے
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہُوئی تحریر بھی دیکھے
لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
دوستی کا دعویٰ تو نہیں ، شعبۂ صحافت میں ہم نشینی کا لطف ضرور اٹھایا۔
اگر حکمرانوں کو شعر یاد کرانے کی مشکل ڈیوٹی نہ ہوتی تواس شاندار شاعر کے اب تک دو تین مجموعے ضرور آچکے ہوتے۔
پیشہ ورانہ قابلیت کے باعث پرویز الہیٰ نے مفید پایا تو شہباز شریف نے بھی ناگزیر ، ورنہ شہباز شریف تو پرویز الہیٰ کے شروع کئے ہوئے ہسپتالوں کے منصوبے بھی روک دیتے رہے ہیں۔
شعیب بن عزیز اپنے محکمے میں سب سے زیادہ گریڈ ترقی پانے والے افسر ہیں۔
دو غزلیں اور کچھ شعر ۔ ۔ ۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
اب تو اُس کی آنکھوں کے میکدے میّسر ہیں
پھر سکون ڈھونڈو گے ساغروں میں جاموں میں
دوستی کا دعویٰ کیا عاشقی سے کیا مطلب
میں ترے فقیروں میں، میں ترے غلاموں میں
جس طرح شعیب اس کا نام چُن لیا تم نے
اس نے بھی ہے چُن رکھا ایک نام ناموں میں
+
دل ِآباد کا برباد بھی ہونا ضروری ہے
جسے پانا ضروری ہے، اسے کھونا ضروری ہے
مکمل کس طرح ہوگا تماشہ برق و باراں کا
ترا ہنسنا ضروری ہے مرا رونا ضروری ہے
بہت سی سرخ آنکھیں شہر میں اچھی نہیں لگتیں
ترے جاگے ہوؤں کا دیر تک سونا ضروری ہے
کسی کی یاد سے اِس عُمر میں دِل کی مُلاقاتیں
ٹھٹھرتی شام میں اِک دُھوپ کا کونا ضروری ہے
یہ خود سر وقت لے جائے کہانی کو کہاں جانے
مصنف کا کسی کردار میں ہونا ضروری ہے
جناب ِ دل بہت نازاں نہ ہوں داغ ِ محبت پر
یہ دنیا ہے یہاں یہ داغ بھی دھونا ضروری ہے
+
غنچہ چٹکا تھا کہیں خاطر بلبل کے لئے
میں نے یہ جانا کہ کچھہ مجھہ سے کہا ہو
جیسےنگار بزم تیری مسکراہٹیں تو کجا
جہاں پہ ہم ہیں وہاں جام تک نہیں آتے
پرائے شہر میں زندہ ہیں یاد کر کے اُنھیں
گئے ہووؤں کے جنھیں نام تک نہیں آتے
بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہُوئی تحریر بھی دیکھے
لکھا رکھا ہے عہدِ ترکِ الفت
مگر دل دستخط کرتا نہیں ہے
“