شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹرحافظ بشیر کے گھرانے میں جنم لیا، گورنمنٹ کالج لاہور سے 1952ءمیں نفسیات اور 1955ء میں فلسفے میں پوسٹ گریجوایشن کی اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ’’صدف‘‘ 1958ء میں ان کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ہے۔ ان کی غزلوں کے مجموعے ’’جلتی بھجتی آنکھیں‘‘ 1969ء پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ’’پیشانی میں سورج’‘ پر انہیں ہجرہ(اقبال) ایوارڈ دیا گیا۔ 1997ء میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔
طالب علمی کے زمانے میں بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا رہا، انہیں 1952 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’اکیڈمک رول آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ وہ 1949،50 کے دوران فلاسوفیکل سوسائٹی کے سیکرٹی بھی رہے۔
شہزاد احمد شعر و نقد شعر کے علاوہ نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین سپرد قلم کر چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔
اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ انہیں انجمن ترقی ادب کا بہترین مضمون نویسی کا ایوارڈ 1958ء، نقوش ایورڈ 1989ء اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ 1997ء بھی مل چکا ہے۔ ’’بیاض‘‘ لاہور ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ان کے نام سے معنون ایک خصوصی شمارہ بھی شائع کر چکا ہے۔
شہزاداحمد کا انتقال یکم اگست 2012 بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹاں چھوڑی ہیں۔
انہوں نے شاعری کے علاوہ فلسفہ اور سائنس پر بہت کام کیا اور کتابیں لکھیں، مشہور کتابوں میں ”ادھ کھلا دریچہ“ ”پیشانی میں سورج“ جلتی بجھتی آنکھیں شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد سائنس کتب کے ترجمے بھی کئے۔
سائنسی مضامین پر ان کی کتاب 1962ءمیں شائع ہوئی۔ وہ حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ گورنمنٹ کالج کے میگزین راوی کے ایڈیٹر بھی رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں
جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں
جہاں میں کوئی بھی شے بے سَبب نہیں ہوتی
سَبب کوئی بھی ہو، اِنکار ہم سُنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں
کِسی بھی خوف سے کیوں چھوڑدیں تِری قُربت
کہیں بھی جائیں، اِس الزام سے بچیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویر کے خطوط نگاہوں سے ہٹ گئے
میں جن کو چومتا تھا وہ کاغذ تو پھٹ گئے
انسان اپنی شکل کو پہچانتا نہیں
آآ کے آئینوں سے پرندے چمٹ گئے
بنتی رہی وہ ایک سویٹر کو مدتوں
چپ چاپ اس کے کتنے شب و روز کٹ گئے
کس شوق سے وہ دیکھ رہے تھے ہجوم کو
جب میں نظر پڑا تو دریچے سے ہٹ گئے
آخر کسی کشش نے انھیں کھینچ ہی لیا
دروازے تک نہ آئے تھے آکر پلٹ گئے
پت جھڑ میں اک کلی بھی میسر نہ آسکی
پس سگرٹوں کی راکھ سے گلدان اَٹ گئے
بدلا ہوا دکھائی دیا آسماں کا رنگ
ذرے زمیں سے، شاخ سے پتے لپٹ گئے
اتنا بھی وقت کب تھا کہ پتوار تھام لیں
ایسی چلی ہوا کہ سفینے اُلٹ گئے
پابندیاں تو صرف لگی تھیں زبان پر
محسوس یہ ہوا کہ مرے ہاتھ کٹ گئے
کچھ سرد تھی ہوا بھی نظر کے دیار کی
کچھ ہم بھی اپنے خول کے اندر سمٹ گئے
ہر سُو دکھائی دیتے ہیں نیزہ بدست لوگ
اے کاخِ ظلم تیرے طرف دار گھٹ گئے
شہزاد پھر سے رخت سفر باندھ لیجیے
رستے بھی سوکھ جائیں گے، بادل تو چھٹ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اِک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اِک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے
اے دل تجھے بدلتی ہوئی رُت سے کیا ملا
پودوں میں پھول اور درختوں میں پھل پڑے
اب کس کے انتظار میں جاگیں تمام شب
وہ ساتھ ہو تو نیند میں کیسے خلل پڑے
شہزاد دل کو ضبط کا یارا نہیں رہا
نکلا جو ماہتاب سمندر اچھل پڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے
اک نظر میری طرف دیکھ تیرا جاتا کیا ہے
میری رسوائی میں تو بھی ہے برابر کا شریک
میرے قصے میرے یاروں کو سناتا کیا ہے
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
سفرِ شوق میں کیوں کانپتے ہیں پاؤں تیرے
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ اٹھاتا کیا ہے
عمر بھر اپنے گریباں سے الجھنے والے
تو مجھے میرے سائے سے ڈراتا کیا ہے
مر گئے پیاس کے مارے تو اٹھا ابرِ کرم
بجھ گئی بزم تو اب شمع جلاتا کیا ہے
میں تیرا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو تیرے ذہن میں آتا کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اور ہوا
گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا
میری بھی تقدیر رہا ہے
تم نے بھی دُنیا دیکھی ہے
پھر بھی جب ہم ملتے ہیں
بچوں جیسی معصومی سے باتیں کرتے ہیں
تم کہتی ہو
آج سے پہلے تیرے جیسا کوئی نہیں تھا
میں کہتا ہوں
میں نے تجھ کو ہر چہرے میں تلاش کیا ہے
تم کہتی ہو
میرا دل دوشیزہ دھرتی جیسا ہے
میں کہتا ہو ں
میں اس دوشیزہ دھرتی کی پہلی بارش ہوں
لیکن ہم پہ ہوا ہنستی ہے
پیار سے آکے لپٹ جاتی ہے
اور کہتی ہے
میں بھی پہلی بار چلی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیارِ بیخودی میں اب تیرے قابل ہو گیا ہوں میں
سرِ محفل بہ اندازِ تغافل دیکھنے والے
تیری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں
بگولوں کی طرح اڑتا پھرا ہوں شوقِ منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاکِ منزل ہو گیا ہوں میں
میری ساحل نشینی انتظارِ سیلِ بے پایاں
انہیں ڈر ہے کہ اب پابندِ ساحل ہو گیا ہوں میں
تمہاری آرزو میں میں نے اپنی آرزو کی تھی
خود اپنی جستجو کا آپ قائل ہو گیا ہوں میں
میری سب زندگی شہزاد اسی عالم میں گزری ہے
کبھی ان سے کبھی غم سے مقابل ہو گیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی
وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی
وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی
وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی
بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے
مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے
اے میرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے
جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاد
سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دِیا لگتا ہے