آج ۔ 18؍مئی 2010
دنیائے نظامت کے بے تاج بادشاہ، الفاظ کے جادوگر، پوری دنیا میں نظامت کو ایک فن تسليم کرانے والے، شہنشاہِ نظامت اور معروف ترین شاعر حضرتِ عمرؔ قریشی صاحب“ کا یوم وفات…..
عمرؔ قریشی صاحب 16؍ستمبر 1924ء کو محلہ خونی پور، شہر گورکھپور اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا اسم گرامی علی بخش اور والدہ مدارن بی بی ہے۔ عمرؔ قریشی نے تعلیم سے فراغت کے بعد محکمہ ریلوے میں ملازمت اختیار کی۔ اور ڈسٹرکٹ آفیسر کے جلیل القدر عہدے پر فائز رہ کر سبکدوش ہوئے۔ عمرؔ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ گورکھپور کی سرزمین نے جہاں فراقؔ مجنوںؔ اور نا جانے کتنے بین الاقوامی شاعر و ادیب اور مایہ ناز شخصیات کو پیدا کیا اسی سر زمین نے دنیائے نظامت کے بے تاج بادشاہ جناب عمرؔ قریشی صاحب کو بھی پیدا کیا۔ عمرؔ صاحب کو نظامت کے فن میں جو مہارت حاصل تھی وہ گنے چنے لوگوں کو ہی حاصل ہوئی۔ عمرؔ صاحب نے لگاتار 40-45 سالوں تک اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ناظم مشاعرہ کے چند اہم کام ہوتے ہیں جن میں شعراء کا تعارف اور ترتیب وار انکو مائک پر مدعو کرنا ہوتا ہے۔ عمرؔ صاحب کا تعارف کراتے ہوئے شعراء کو مائک پر بلانے کا فن ایک جادو سے کم نہیں ہوتا تھا۔ دوسرا سب سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے سامعین کی پسند نا پسند سے واقفیت جو معمولی کام نہیں ہوتا اور عمرؔ صاحب عوام کی نبض پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں لیتے تھے۔ تیسرا اہم کام یہ کی اکثر مجمع اکھڑنے لگتا ہے جسکو کنٹرول کرنے کا جو جادو انکو آتا تھا شاید بہت ہی کم لوگوں کو آتا ہو۔ شاعر اگر ہوٹ ہو گیا اور بات بگڑتی نظر آئی تو عمرؔ صاحب اپنی جگہ سے آٹھ کر شاعر سے مائک لے لیتے تھے اور پھر اپنے منفرد انداز میں لوگوں کو ایسا خاموش کراتے کبھی اشعار کی گولی سے تو کبھی اس سرزمین کی آبرو رکھنے کے نام پر تو کبھی خود کی دہائی دیکر کہ مجمے کو خاموش ہو کر اس شاعر کو سننا ہی پڑتا تھا۔
عام طور سے پڑھے لکھے سامعین کو تو سمجھانے اور کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں کے برابر ہوتی ہے لیکن اکثریت میں موجود قدر کم لکھے پڑھوں کو قابو میں کرنا یہ عمرؔ صاحب کے بس کا ہوتا تھا۔ دراصل وہ صرف ناظم مشاعرہ ہی نہیں تھے بلکہ ایک بہترین شاعر بھی تھے جنکے پانچ لاجواب مجموعہ کلام بھی منظر عام پر آئے لیکن انکے ناظم نے انکے شاعر کو موقع نہیں دیا جو عام طور پر ناظم مشاعرہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہندوستان کے بہت کم ایسے نامور شاعر رہے ہونگے جو انکے احد میں تھے اور انکی نظامت میں جنہوں نے مشاعرہ نا پڑھا ہو۔ وہ عام طور پر بہت ہی خاموش طبیعت کے مالک تھے لیکن گورکھپور میں اپنے ہم عصر شاعروں اور دوستوں کے ساتھ بے تکلف بھی تھے۔ بالآخر آسمانِ نظامت کا وہ روشن ستارہ جو اہلِ سخن کے دلوں پر راج کرتا تھا، طویل علالت کے بعد 18؍مئی 2010ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
عمر صاحب کے داماد جناب Khursheed Alam Qureshi صاحب نے انکے نام پر ایک اکیڈمی (عمر قریشی اکیڈمی گورکھپور یو۔پی) قائم کی ہوئی ہے۔
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
معروف ناظم، اور شاعر عمرؔ قریشی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…..
قلم اٹھاؤ کہ کچھ لکھ دوں زندگی کے لئے
زمانہ مجھ کو مرے بعد بھول جائے گا
————–
مٹّی کا جسم خاک کے بستر پہ سو گیا
اک پھول تھا جو اپنی ہی خوشبو میں کھو گیا
————–
ظالم کی جفاؤں کا انداز نرالا ہے
پھر اس نے بلایا ہے کچھ دال میں کالا ہے
ہے سارا جہاں اس کا یہ فرق ہے مگر کیسا
ایک سمت اندھیرا ہے اک سمت اُجالا ہے
للّٰه نہ تم آنا اب میرے خیالوں میں
میں نے دل مضطر کو مشکل سے سنبھالا ہے
تجھ سے یہ میرا ملنا بن جاتا نہ افسانہ
اپنوں نے ہوا دی ہے غیروں نے اچھالا ہے
ناحق ہے گلہ تم کو، اوروں سے تغافل کا
تم نے بھی تو لوگوں کو وعدوں ہی پہ ڈالا ہے
جس دل کے لیے ہم نے لاکھوں ہیں ستم جھیلے
الجھن میں عمرؔ ہم کو، اس دل ہی نے ڈالا ہے
————–
گل بداماں ہر خوشی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
زندگی اب زندگی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
جل اٹھے ہیں ہر طرف، تیری محبت کے چراغ
روشنی ہی روشنی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
تیرے قدموں پر جبین شوق نے پایا سکوں
سر بسجدہ بندگی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
اب کسی کا غم نہیں، دشمن زمانہ ہو تو کیا
دشمنی بھی دوستی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
فرش پر ہونے لگا مجھ کو گماں اب عرش کا
بیخودی سی بیخودی ہے، تیرے مل جانے کے بعد
یا عمرؔ خود میں نہیں ہے، یا ہے معراجِ جنوں
جستجو اب بھی تری ہے، تیرے مل جانے کے بعد
————–
نہ شاعروں سے، نہ مجھکو یہ فکر و فن سے ملا
مجھے غزل کا تصور، ترے بدن سے ملا لا
نظر میں لا نہ سکے دلکشی ماہ و نجوم
یہ حوصلہ تو ہمیں تیرے بانکپن سے ملا
میں ڈھونڈتا رہا خود کو گلی گلی لیکن
مجھے تو اپنا پتہ تیری انجمن سے ملا
جنھیں سمجھتے تھے ہم پھول، وہ بھی کانٹے تھے
سراغ اس کا ہر اک گوشہ چمن سے ملا
تمہاری گل بدنی کا نہ بھید کھل پاتا
یہ راز نرگس و نسرین و نسترن سے ملا
اٹھا کے گورِ غریباں کی چوم لی مٹی
کہ جیسے مجھ کو یہ تحفہ مرے وطن سے ملا
مجھے بنا دیا دیوانہ اک ”ولی“ نے عمرؔ
کہ یہ جنون غزل تو مجھے دکن سے ملا
————–
عشق اس کو زبان اردو سے
عاشقِ ”میر“ و ”غالب“ و ”اقبال“
اس کی ہر ایک ادا میں لاکھوں خلوص
اس کے اخلاص پہ نہ آیا زوال
————–
دیتا نہیں شراب تو اب زہر ڈال دے
ساقی ہے کچھ نہ کچھ مرے ساغر میں ڈال دے
————–
می نوش کم و بیش کا شکوہ نہیں کرتے
دو گھونٹ ہیں کافی جو محبت سے پلا دو
————–
اپنے دکھ درد میں تم مجھ کو بنا لینا شریک
سارے غم دل میں رکھو گے تو بہت روؤ گئے
————–
کردار کا سودا کوئی آسان نہیں تھا
جو بک گیا وہ صاحب ایمان نہیں تھا
————–
تذکرے طوق سلاسل کے ہیں زندہ ہم سے
داستان رسن و دار، ہمیں نے دی ہے
————–
تنہائیوں کے کرب کا احساس کچھ کرو
تنہا جو رہ گئے تو سہارا بنے گا کون؟
آپس میں گر قدم نہ ملا کر چلے گئے ہم
سرحد پہ دشمنوں سے بتاؤ لڑے گا کون؟
اک دوسرے کا قتل جو ہوتا رہا عمرؔ
دھرتی پہ اپنے دیس کی آخر رہے گا کون؟
————–
دے کے دنیا کو جو ظلمات کا سايا جائے
ایسے سیارے کو سورج نہ بھوکا رہ جائے
————–
یا تو سقراطوں کو تم دیس نکالا دے دو
یا تو ہر ہاتھ میں ایک زہر کا پیالہ دے دو
————–
بکھری ہوئی زلفوں کو گرہ گیر بنا لو
رکھنا ہے مجھے قید کو زنجیر بنا لو
————–
جس میں ظالم کو اجازت نہ ہو رہنے کی کبھی
دوستو! ایسا کوئی شہر بسایا جائے
جھوٹ کو جھوٹ میں کہتا ہی رہوں گا سن لو
لاکھ سر کو مرے، نیزے پہ اچھالا جائے
ناگنیں ڈستی چلی جاتی ہیں بستی ساری
ہے اب بھی وقت سنپیروں کو بلایا جائے
یا تو مقتل کو چلیں یا تو چلیں سوئے صلیب
دل کاارمان کسی طرح نکالا جائے
————–
میری زبان سے حق کی صدا اگر نہیں پسند
اچھا یہی ھے مجھ کو شہر سے نکال دے
مالک تیرے عمرؔ کی بس اتنی ہے آرزو
زورِ قلم دیا ہے تو حسنِ خیال دے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
عمرؔ قریشی
✍️ انتخاب : شمیم ریاض
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...