12 مارچ نسوانی احساسات، جذبات، خیالات اورتصورات سے معمور شاعرہ شبنم شکیل کا جنم دن ہے
وہ 12 مارچ 1942ءکولاہور میں غیر منقسم ہندوستان کے عظیم شاعر، نقاد اور دانشور سید عابد علی عابد کے ہاں پیدا ہوئیں۔ انہیں شعر و شاعری کا شغف اپنے والدسے ورثے میں ملا تھا چنانچہ شاعرانہ تخیلات بھی ان کی میراث تھے۔ ان کے گھر کا ماحول بھی ادبی تھاجس نے ان کے ذہن کو سیراب کیا اور وہ بھی اپنے والدِ ماجد کی طرح اعلیٰ پائے کی نقاد، دانشور، نثر نگار اور شاعرہ بن گئیں۔انہوں نے کم عمری میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ ان کی پہلی تصنیف ”تنقیدی مضامین“1965ءمیں شائع ہوئی تھی۔
شبنم شکیل نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور پاکستان کے شہر لاہور میں گزارا۔لاہور کے معروف کنیرڈکالج میں انہوں نے داخلہ لیا اور اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کی۔اس کے بعد اورینٹل کالج، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔تعلیمی سلسلہ مکمل کرلینے کے بعد شبنم نے کو ئن میری کالج میں اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے تدریس شروع کر دیں۔یوں انہوں نے تعلیمی شعبے میں قدم رکھا جس کے بعد وہ 30 سال تک اسی شعبے میں خدمات انجام دیتی رہیں۔کوئن میری کالج کے بعد انہوں نے لاہور کالج فار ویمن، گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ، فیڈرل گورنمنٹ گرلز کالج F7/2 اسلام آباداور گورنمنٹ گرلز کالج راولپنڈی میں تدریسی سلسلہ جاری رکھا۔
شبنم 1967ءمیں ”شبنم شکیل“ ہوگئیں کیونکہ وہ ایک سرکاری افسر سید شکیل احمد سے رشتہ¿ ازدواج میں منسلک ہو گئی تھیں۔ انہیں ربِ کریم نے2بیٹوں وقار حسنین احمد اورجہانزیب احمد کے علاوہ ایک بیٹی ملاحت سے نوازا۔
شبنم شکیل نے کُل8کتابیں لکھیں جن میں 4نثر کی اور4شعری مجموعے ہیں۔ ان کی نثری کتب میں ”تنقیدی مضامین، تقریب کچھ تو،نہ قفس نہ آشیانہ ،خواتین کی شاعری اور مشاعرے پر اس کے اثرات“شامل ہیں جبکہ شعری مجموعوں میں”شب زاد، اضطراب، مسافت رائگاں تھی اور حسرت موہانی کا تغزل“ شامل ہیں۔ آخری کتاب یعنی ”حسرت موہانی کا تغزل“ابھی زیر طباعت ہے۔
شاعرہ شبنم شکیل نے متعدد ایوارڈز حاصل کئے جن میں 2004ءکا صدارتی پرائڈ آف پرفارمنس، 1994ءمیں ہمدرد فاﺅنڈیشن کا ایوارڈ آف ریکگنیشن، 1998ءکا بولان ایوارڈ،حکومت بلوچستان کا ایوارڈ برائے نامور خواتین نیز پاکستان کی سماجی و ادبی تنظیموں کی جانب سے دیئے جانے والے متعد دایوارڈزبھی ان کے نام ہوئے۔وہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی تاحیات رکن ہونے کے علاوہ پی ٹی وی سینسر بورڈ چینل 3،پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی اسکالر شپ کمیٹی، لاہور کی پنجاب پبلک لائبریری بورڈنیز ریڈیو پاکستان کی ایوارڈ جیوری، روین شاکر ٹرسٹ اینڈ اکیڈمی آف لیٹرز ہجرہ ایوارڈز کی رکن بھی تھیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر2 جامعات میں ریسرچ پیپرز بھی لکھے گئے۔لاہور کی معروف جامعہ ”لمس“ نے بی ایس سی آنرز کے کورس میں شبنم شکیل کی شاعری شامل کی ہے۔
اتنی خوبیوں کی مالک شبنم شکیل، اردو ادب کے افق کا ستارہ نہیں بلکہ آسمانِ ریختہ کی کہکشاں تھیں۔ وہ آج اس دنیا میں نہیں رہیں مگر ان کی شاعری تا قیامت حساس دلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
شبنم کی شاعری ایسی ہے گویا صنفِ نازک کے نہاں خانہ¿ دل میں پوشیدہ کسک کو لفظوں کی شکل دے کر قرطاس پر بکھیر دیا گیا ہو۔ ان کا کلام پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے قاری لفظوں کو نہیں پڑھ رہا بلکہ لفظ قاری سے کلام کر رہے ہیں۔
بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں
کچھ ایسے شہر ہیں جن کی فصیل کوئی نہیں
کسی سے کسی طرح انصاف مانگنے جاﺅں
عدالتیں تو بہت ہیں ، عدیل کوئی نہیں
سبھی کے ہاتھوں پہ لکھا ہے ان کا نام و نسب
قبیل دار ہیں سب ، بے قبیل کوئی نہیں
ہے دشتِ غم کا سفر اور مجھے خبر بھی ہے
کہ راستے میں یہاں سنگِ میل کوئی نہیں
ابھی سے ڈھونڈ کے رکھو نظر میں راہِ سفر
یہاں ہے پیاس سے مرنا، سبیل کوئی نہیں
مری شناخت الگ ہے،تری شناخت الگ
یہ زعم دونوں کو ، میرا مثیل کوئی نہیں
عورت جیسے جیسے عمر کی منازل طے کرتی جاتی ہے،آئینے سے اس کی دوستی کم ہوتی جاتی ہے کیونکہ وہ اسے ہر روز جمال کے رخصت ہونے کا احساس دلاتا ہے اور یہ باورکراتا ہے کہ اب تو بادِ صبا سے اٹکھیلیاں کرتی کلی نہیں رہی بلکہ حسرتوں کے مزار پر سجا ہوا اک پھول ہے جسے کسی بھی وقت ہوا کاتیز جھونکا اڑا کر لے جا سکتا ہے اورپھر لوگوں کے پیروں تلے کچلے جانا تیرا مقدر ہو سکتا ہے۔اس انجانے خوف سے سہمی یہ ہستی ہر قدم پھونک کر رکھنا شروع کر دیتی ہے ۔اس غیر مرئی خوف کو شبنم نے کس انداز میں واضح کیا، توجہ فرمائیے:
ہم حدِ ماہ و سال سے آگے نہیں گئے
خوابوں میں بھی خیال سے آگے نہیں گئے
کچھ وہ بھی التفات میں ایسا سخی نہ تھا
کچھ ہم بھی عرضِ حال سے آگے نہیں گئے
تھیں تو ضرور منزلیں اس سے پرے بھی کچھ
لیکن ترے خیال سے آگے نہیں گئے
ہر حد سے ماورا تھی سخاوت میں اس کی ذات
ہم آخری سوال سے آگے نہیں گئے
سوچا تھا میرے دکھ کا مداوا کریں گے کچھ
وہ پُرسشِ ملال سے آگے نہیں گئے
کچھ خود سری کے فن میں نہ تھے ہم بھی کم مگر
اس صاحبِ کمال سے آگے نہیں گئے
کیا ظلم ہے کہ عشق کا دعویٰ انہیں بھی ہے
جو حدِ اعتدال سے چآگے نہیں گئے
شبنم شکیل 2 مارچ 2013 کو کراچی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
اب مجھ کو رخصت ہونا ہے کچھ میرا ہار سنگھار کرو
کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو ، جلدی سے مجھے تیار کرو
یہ کیسا انوکھا جوڑا ہے جو آج مجھے پہنایاہے
حوروں سی دلہن میں بنی، اب اٹھو اور دیدار کرو
اک ہار ہے سرخ گلابوں کا اک چادر سرخ گلابوں کی
اور کتنا روپ چڑھا مجھ پر ، اس بات کا تم اقرار کرو
اک بار یہاں سے جاﺅں گی میں لوٹ کے پھر کب آﺅں گی
تم آہ و زاری لاکھ کرو ، تم مِنت سو سو بار کرو
رو رو کر آنکھیں لال ہوئیں، تم کیوں سکھیو بے حال ہوئیں
اب ڈولی اٹھنے والی ہے ، لو آﺅ مجھ کو پیار کرو
ہاں یاد آیا اس بستی میں، کچھ دیے جلا ئے تھے میں نے
تم ان کو بجھنے مت دینا بس یہ وعدہ اک بار کرو