آج – 26؍اگست 1976
سیمابؔ اکبرآبادی کے شاگرد اور کلاسیکی طرز کے معروف شاعر” بسملؔ سعیدی صاحب “ کا یومِ وفات…
بسمل سعیدی کا شمار بیسوی صدی کے خالص کلاسیکی طرز کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی غزلوں میں روایتی مضامین نئے رنگ اور نئی آب وتاب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی نظمیں ان کی ایک اور ہی تخلیقی جہت کا پتا دیتی ہیں۔ یہ نظمیں ان تمام مسائل وموضوعات کو محیط ہیں جو ان کے عہد کے پیدا کئے ہوئے تھے۔
بسمل سعیدی کا نام سیّد عیسی میاں تھا۔ ٦؍جنوری ١٩٠١ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے ۔ مدرسہ عالیہ سے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ریاست ٹونک میں ملازم ہوگئے ۔ 1940 میں جے پور چلے گئے اور ممتاز الدولہ نواب مکرم علی خاں رئیس کے مصاحبین میں شامل ہوئے۔ یہاں سات سال قیام کیا اس کے بعد مستقل طور پر دہلی آگئے ۔ ٢٦؍اگست ١٩٧٦ء کو دہلی میں ہی انتقال ہوا۔
✨ پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
━━━━━━ ❃❃✺ ✿✺❃❃ ━━━━━━
معروف شاعر بسملؔ سعیدی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے
ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے
کیا اہل جہاں تجھ کو ستم گر نہیں کہتے
کہتے تو ہیں لیکن ترے منہ پر نہیں کہتے
کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے
رندوں کو ڈرا سکتے ہیں کیا حضرت واعظ
جو کہتے ہیں اللہ سے ڈر کر نہیں کہتے
ہر بار نئے شوق سے ہے عرض تمنا
سو بار بھی ہم کہہ کے مکرر نہیں کہتے
مے خانے کے اندر بھی وہ کہتے نہیں مے خوار
جو بات کہ مے خانے کے باہر نہیں کہتے
کہتے ہیں محبت فقط اس حال کو بسملؔ
جس حال کو ہم ان سے بھی اکثر نہیں کہتے
❀◐┉══════════┉◐❀
نہ اب وہ عشق نہ وہ عشق کی ادائیں رہیں
نہ اب وہ حسن نہ وہ حسن کی ہوائیں رہیں
نہ عشق عشق رہا اب نہ حسن حسن رہا
نہ وہ وفائیں رہیں اب نہ وہ جفائیں رہیں
وہ حسن و عشق کے راز و نیاز ہی نہ رہے
نہ وہ خطائیں رہیں اب نہ وہ سزائیں رہیں
مزاج حسن و محبت میں سادگی نہ فریب
نہ وہ یقین رہا اب نہ وہ دغائیں رہیں
غرور حسن کی بے التفاتیوں کی طرح
نگاہ شوق رہی اب نہ التجائیں رہیں
نہ وہ عیادت و تسکیں نہ وہ دل رنجور
نہ اب وہ درد محبت نہ وہ دوائیں رہیں
نہ زندگی سے وہ نفرت نہ موت کی حسرت
وہ بد دعائیں رہیں اب نہ وہ دعائیں رہیں
رباب عشق نہ مضراب حسن کچھ بھی نہیں
وہ نغمہ ہائے تمنا نہ وہ صدائیں رہیں
نہ مے کدہ نہ وہ مے خوار اور نہ وہ ساقی
نہ وہ چمن نہ بہاریں نہ وہ گھٹائیں رہیں
بدل گئے سحر و شام زندگی بسملؔ
وہ زندگی کے مناظر نہ وہ فضائیں رہیں
❀◐┉═════ ✺✺═════┉◐❀
غم نہیں نازِ حسن ہے حسن کے ناز اٹھائے جا
اے دل مبتلائے غم غم میں بھی مسکرائے جا
حسن ہے عشق آفریں حسن پہ دل لٹائے جا
عشق کو دردِ دل بنا درد کو دل بنائے جا
جلوہ بہ جلوہ گر نہیں پردہ بہ پردہ آئے جا
دل میں مرے سمائے جا روح میں جگمگائے جا
شورشِ کائنات میں غم کو خوشی بنائے جا
ہنس مرے آنسوؤں میں تو آہ میں مسکرائے جا
تاروں میں جگمگائے جا چاند میں مسکرائے جا
دور سے کوئی نغمۂ روح فزا سنائے جا
ضبط بقدر ظرف ہے ظرف بقدر شوق ہے
تو ابھی سامنے نہ آ شوق ابھی بڑھائے جا
باہمہ ترک رسم و راہ کچھ تو ہو التفات بھی
تو مجھے بھول جا مگر یاد مجھے تو آئے جا
حسن سے بڑھ کے بد گماں عشق ہے اپنے آپ سے
میں ابھی مطمئن نہیں تو مجھے آزمائے جا
صرف جبینِ شوق ہو اور کسی کا آستاں
سجدے بھی درمیاں نہ ہوں سجدوں کو بھی مٹائے جا
بزمِ نشاط کائنات مجھ پہ ہے خندہ زن ہنوز
خلوتِ غم میں تو ابھی اور مجھے رلائے جا
اب نہ وہ بسملؔ اور نہ تو اب نہ وہ دل نہ آرزو
اب تو خدا کے واسطے یاد اسے نہ آئے جا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
بسملؔ سعیدی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ