ہیلو!
شاہ صاحب! اسلام آباد سے بول رہا ہوں۔ آپ کا خادم۔
سائیں کیا حال ہے ؟ دارالحکومت کا؟
حال اچھا نہیں ہے شاہ صاحب!
سائیں آپ ہی کو بہت شوق تھا وفاقی وزیر بننے کا‘ ہم تو آپ کو اپنی کابینہ میں لینا چاہتے تھے ۔ آپ ہمارے ہاتھ میں نہ آئے اور اُڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے۔
شاہ صاحب ! بس قسمت کی بات ہے۔ آپ بتائیے کیا ہورہا ہے؟
بس ، سائیں معاملات کنٹرول میں ہیں۔ اللہ کا شکر ہے۔ وہ چودھری نویکلا خان آپ کو یاد ہے؟
کون چودھری نویکلا خان ؟ اچھا ، یاد آگیا، وہی جو چیف منسٹر ہائوس میں ہروقت موجود رہتا ہے۔شاہ صاحب ! بہت ہی گرویدہ ہے وہ آپ کا ، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کار میں بیٹھنا ہوتو دروازہ خود نہ کھولے۔
ہاں سائیں ! وہی‘ ہم نے اسے وزیر امور بھتہ خوری لگایا ہے۔ سائیں ! آدمی وہ سمجھدار ہے اور مستعد بھی۔ حالات اس نے اس طرح کنٹرول کیے ہیں کہ اس کے بعد بھتہ خوری کی خبر میڈیا میں نہیں آئی۔
وہ کیسے شاہ صاحب ؟
سائیں! اس نے سیدھے سیدھے دو اقدامات کیے ۔ پہلے تو اس نے شہر بھر کے تاجروں دکانداروں کمپنیوں کے مالکان سب کو
اطلاع بھجوائی کہ جیسے ہی بھتے کی پرچی موصول ہو۔ ڈرنے کی ضرورت ہے نہ میڈیا میں کسی کو بتانے کی، بس فوراً وزارت امور بھتہ خوری میں رپورٹ کریں۔ دوسرا اقدام اس نے یہ کیا کہ تمام بھتہ خوروں کو جمع کرکے ان کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں اس بات پر راضی کیا کہ وہ بھتہ کی رقم سال کے شروع میں فکس کردیں اور پھر ایک سال تک اس میں اضافہ نہ کریں۔ اس کے بدلے میں اس نے بھتہ خوروں کو یہ سہولت فراہم کی کہ انہیں ماہ بماہ پرچی بھیجنے کی تکلیف نہیں کرنا پڑے گی نہ ہی رقم وصول کرنے کے لیے آدمیوں کو ہر تاجر ہر کمپنی کے پاس بھیجنا پڑے گا۔ بھتہ ادا کرنے والے یہ رقم ہر یکم کو متعلقہ بنک اکائونٹ میں جمع کرا دیا کریں گے۔ بس سائیں ! اس کے بعد شہر میں ایسا سکون ہوا ہے کہ کیا بتائوں اور کیا تعریف کروں۔ہر روز خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کرتا ہوں کہ عقل کو استعمال میں لایا اور چودھری نویکلا خان کو یہ منصب عطا کیا۔ بھتہ دینے والے مطمئن ہیں اور خوش! وہ جو اذیت تھی اور ایک انجانا خوف تھا اور ایک درد ناک بے قراری تھی ہر ماہ پر چی وصول کرنے کی ، جیسے اس شخص کو ہوتی ہے جسے ہر سال رُت تبدیل ہونے کے دنوں میں سانپ کاٹنے آتا ہے ، وہ ختم ہوگئی۔ سائیں ، ایک سسٹم بن گیا ہے۔ لینے والے بھی مطمئن اور دینے والے بھی خوش ! ہاں یاد آیا ، چودھری نویکلا خان نے بھتہ خوروں کو اس بات پر بھی راضی
کرلیا ہے کہ اگر کسی نے ان کے بنک اکائونٹ میں یکم کو رقم جمع نہیں کرائی تو وہ ایکشن لینے سے پہلے ایک ماہ انتظار کریں گے اور اس کے بعد اسے قتل کریں گے۔
لیکن شاہ صاحب چودھری نویکلا خان کو اس سارے جھنجٹ سے حاصل کیا ہوا؟
سائیں! بڑی زبردست بات پوچھی ہے آپ نے۔ اب آپ سے کیا پردہ ، چودھری نے پراپرٹی ڈیلنگ اور کار ڈیلنگ کی طرح بھتہ ڈیلنگ کو بھی سائنس بنادیا ہے۔ بس ایک معقول رقم فیس کے طور پر دونوں پارٹیوں سے چودھری لیتا ہے۔ سائیں ! آپ تو ہمارا ہی احوال پوچھے جارہے ہیں ، کچھ دارالحکومت کی بھی تو سنائیں۔
شاہ صاحب! آپ نے جس خوبصورتی اور منطق سے بھتہ خوری کے مسئلے کو حل کیا ہے وہ خوبصورتی اور منطق یہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ یہاں تو بدانتظامی عروج پر ہے۔ مرکزی کابینہ میں ایک نئی وزارت قائم ہوئی۔ امور اغوا برائے تاوان کی لیکن شاہ صاحب! مجال ہے جو کوئی بہتری آئی ہو۔ آج کی تاریخ میں صورت حال یہ ہے کہ کابینہ کے دو ارکان قبائلی علاقے میں محبوس ہیں۔ امور اغوا برائے تاوان کا مرکزی وزیر دو ماہ سے بنوں میں بیٹھا اغوا کاروں سے مذاکرات کررہا ہے اور بات بن نہیں رہی۔ مذاکرات کے اس سارے عرصے میں اغوا کار مرکزی حکومت سے ڈیلی الائونس لے رہے ہیں اور ان کے لیے اور وزیر صاحب اور ان کی پوری ٹیم کے لیے کھانا ہر روز پشاور کے فائیو سٹار ہوٹل سے سرکاری خرچ پر آرہا ہے۔
سائیں ! پولیس افسر کا کیا بنا؟
ہاں شاہ صاحب ! میں بتانے ہی والا تھا پولیس کے سربراہ کو اغوا ہوئے تین ہفتے ہونے کو ہیں۔ ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا۔ امور اغوا برائے تاوان کے وزیر کا خیال ہے کہ یہ ہائی پروفائل اغوا پولیس ہی کے ایک اہلکار کے گینگ نے کیا ہے یا اگر گینگ قبائلی علاقوں کا ہے تو اس گینگ کا نمائندہ وہ اہلکار ہی ہے۔ وزیر صاحب نے ہمت کی اور اس اہلکار سے مذاکرات کی سلسلہ جنبانی بھی کی لیکن بیل منڈھے نہیں چڑھ رہی۔
سائیں ! وہ جو دو سال پہلے ریلوے کے محکمے کو بھتے کی پرچی ملی تھی، اس کا کیا ہوا؟
شاہ صاحب ! وہ دو سال پہلے ملنے والی پرچی تو محض آغاز تھا اب تو معاملہ بہت سارے محکموں کا ہے شاہ صاحب ! آپ کو یاد ہوگا کہ دو سال پہلے ریلوے کو آنے والے ٹیلی فون کا سراغ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ افغانستان سے آیا تھا۔ دنیا کا بدترین مذاق یہ کیاگیا کہ حکومت نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر اس وقت پاکستان کی حکومت افغانستان سے ساری آمدورفت بند کردیتی اور ہر قسم کی سپلائی وہاں جانے سے روک دیتی اور یہ مطالبہ کرتی کہ ٹیلی فون کرنے والے گروہ کو ہمارے حوالے کیاجائے تو یہ سلسلہ آگے نہ بڑھتا۔ شاہ صاحب ! کتنے شرم کی بات ہے! گزشتہ ہفتے دبئی میں ایک بھارتی وزیر سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا ’’ اگر ایسا فون کسی ملک سے بھارت کو ملتا تو دنیا دیکھتی کہ اس ملک کا کیا حشر ہوتا۔ افغانستان کی تو شہ رگ ، پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔ پھر بھی وہاں سے بھتہ کے ٹیلی فون آتے ہیں اور پشاور میں پاکستانی سم مہنگی ہے اور افغان سم سستی ہے !!‘‘خیر یہ تو اور بات ہے میں یہ کہہ رہا تھا کہ اب معاملہ ایک دو محکموں کا نہیں ہے۔ اس وقت تقریباً سارے بڑے بڑے وفاقی محکمے بھتہ دے رہے ہیں۔ ائیرپورٹ پر بھتہ ادا کرنے کا باقاعدہ کائونٹر بنا دیاگیا ہے۔ دارالحکومت کے سو فیصد تاجر اور دکاندار تو بھتہ دے ہی رہے ہیں۔ پروموشن پر سرکاری افسر کو بھی بھتہ دینا پڑتا ہے۔ وفاقی سیکرٹری کا چارج لینے کے لیے سب سے زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے ۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں پہلے تو وہ ریٹائرڈ بابو لگتے تھے جو وزیراعظم یا صدر کے ذاتی وفادار ہوتے تھے ، اب وہ لگتے ہیں جن کے پاس بھتہ کی پرچی ہو اور اس پر Paid کی مہر لگی ہوئی ہو۔
http://columns.izharulhaq.net/2013_10_01_archive.html
“